عمران خان کے چھ دن: لانگ مارچ کا اعلان بجٹ کے بعد ہوگا؟
عمران خان کے چھ دن: لانگ مارچ کا اعلان بجٹ کے بعد ہوگا؟
جمعرات 2 جون 2022 6:56
بشیر چوہدری -اردو نیوز، اسلام آباد
عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرکے چھ دن بعد آنے کا اعلان کیا تو ان کے ناقدین کو جیسے پہلے سے علم سے تھا کہ وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
26 مئی کی صبح جب عمران خان جناح ایونیو پر لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے تو عمومی تاثر یہی تھا کہ یہ ان کا افتتاحی خطاب ہے لیکن انھوں نے خود ہی اسے اختتامی خطاب بنا دیا اور دھرنا نہ دینے اور لانگ مارچ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔
عمران خان کے دھرنے کی طوالت کی امید کی بہت سی وجوہات تھیں، جن میں 2014 میں ان کا طویل ترین دھرنا اور ایک دن قبل حکومت سے ڈیل کی خبریں سامنے آنے کے بعد عمران خان سمیت تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے ایسی کسی بھی ڈیل کی خبروں کو بے بنیاد قرار دینا بھی تھا ۔
اسی طرح سپریم کورٹ میں جب تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان سے پوچھا گیا کہ ان کا احتجاج کتنا طویل ہوگا تو انھوں نے کہا کہ ’ہمارا سیاسی فیصلہ ہے کہ نئے انتخابات کے اعلان ہونے تک ہم نے بیٹھنا ہے۔‘
عمران خان نے لانگ مارچ کے بعد اعلان کیا کہ ’حکومت کو چھ دن کہ مہلت دے رہا ہوں۔ حکومت چھ دن میں اسمبلی تحلیل اور انتخابات کا اعلان کرے ورنہ چھ دن بعد پھر اسلام آباد آئیں گے اور لاکھوں لوگ اسلام آباد کا رخ کریں گے۔‘ عمران خان کے اس اچانک اعلان نے جہاں تحریک انصاف کے سرگرم اور جوشیلے کارکنان کو مایوس کیا وہیں حکومت سمیت بہت سے حلقوں کے لیے بھی اعلان اچانک ہی تھا۔
عمران خان کے اس اچانک اعلان کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کئی ایک وجوہات بتائی جاتی رہیں لیکن تحریک انصاف سمیت کسی بھی فورم پر ان کی باضابطہ تصدیق نہیں ہوسکی۔
ایک تاثر یہ بھی سامنے آیا کہ عمران خان نے حکومتی اقدامات، رکاوٹوں، تشدد اور گرفتاریوں کے باعث کارکنان کی کم تعداد میں شرکت کی وجہ سے مایوس ہوکر دھرنا نہ دینے کا اعلاں کیا۔ دوسری طرف یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ حکومت، تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان مذاکرات اور ڈیل کے نتیجے میں عمران خان نے لانگ مارچ ختم کیا۔
عمران خان نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ اگر میں لانگ مارچ ختم نہ کرتا تو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور کارکنوں کے درمیان تصادم کا خدشہ تھا۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے لانگ مارچ ختم کیا۔
جس دن عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرکے چھ دن بعد آنے کا اعلان کیا تو ان کے ناقدین کو جیسے پہلے سے علم سے تھا کہ وہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ اس لیے انھوں نے خود سے ہی سوشل میڈیا پر کاؤنٹ ڈاؤن شروع کر دیا تھا۔
ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ عمران خان نے اپنے اعلان کی مزید وضاحت کی اور کہا کہ ’جب چھ دن گزر جائیں گے تب بتاؤں گا کہ اگلا لانگ مارچ کب کرنا ہے۔‘
اس کے بعد بدھ کے روز جب عمران خان کی دی گئی مہلت کے چھ دن ختم ہوگئے تو تحریک انصاف کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکرتے ہوئے استدعا کی گئی کہ حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ لانگ مارچ کی اجازت دے، گرفتاریاں نہ کرے، راستے بند نہ کرے۔
اس درخواست کے دائر ہونے کے بعد عمران خان نے لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سپریم کورٹ تحفظ فراہم کرے گی تو پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے۔
دوسری جانب حکومت نے عمران خان کی جانب سے دی گئی مہلت کے بعد نئے لانگ مارچ کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کنٹینر داخلی راستوں پر پہنچانا بھی شروع کر دیے ہیں۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف کے مستعفی ارکان کو استعفوں کی تصدیق کے لیے طلبی کے بعد تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اگر حکومت الیکشن کا ٹائم فریم دے تو تحریک انصاف پارلیمان میں ان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔
چھ دن گزر جانے کے باوجود نئے لانگ مارچ کا اعلان نہ ہونے اور تحریک انصاف کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات اور پی ٹی آئی کےقریبی حلقوں کی جانب سے جہاں حکومت کے ساتھ ڈیل کے تاثر کو تقویت دے جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی بجٹ کی منظوری سمیت دیگر اہم معاشی اقدامات کے دوران کسی قسم کا روڑے نہیں اٹکائے گی اور بجٹ منظوری کے بعد ہی نئے لانگ مارچ کا اعلان کرے گی۔
دوسری جانب ناقدین کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان اپنی احتجاجی تحریک کے پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد جہاں اپنی قیادت سے نالاں ہیں وہیں وہ حکومتی اقدامات سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے تحریک کا اگلا مرحلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کیا ہے۔