Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ: ’پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے خلاف ورزی کے شواہد نہیں‘

عدالت کا تفصیلی فیصلہ 14 صفحات پر مشتمل ہے جو چیف جسٹس نے تحریر کیا۔ فائل فوٹو: روئٹرز
سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کے دوران عدالتی حکم نامے کی خلاف ورزی پر دائر توہین عدالت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بظاہر ریلی کے دوران پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت کی جانب سے کسی خلاف ورزی کے شواہد نہیں۔‘
بدھ کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے تحریر کردہ 14 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے مطابق پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ’عمران خان کے خلاف عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے شواہد موجود ہیں۔‘
عدالت نے قرار دیا کہ بظاہر ریلی کے دوران سینیئر قیادت کی جانب سے کسی خلاف ورزی کے شواہد نہیں۔ ’بہرصورت احتجاج کے دوران پیش آنے والے واقعات کے حقائق اور شواہد جمع کیے جانے کی ضرورت ہے اور اگر اس کے پیچھے کوئی تھا تو ان کی شناخت بھی ہونا چاہیے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا ہے کہ اس مرحلے پر اسلام آباد پولیس کے سربراہ، چیف کمشنر، سیکریٹری داخلہ، انٹیلی جنس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل اور ڈی جی آئی ایس آئی کو لانگ مارچ کے دوران پیش آںے والے واقعات پر رپورٹ دینے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
عدالت نے متعلقہ حکام کے سامنے سوالات رکھے ہیں کہ وہ ان کے جواب پر مشتمل رپورٹ ایک ہفتے میں لارجر بینچ کے جائزے کے لیے دیں۔ سوالات کچھ یوں ہیں:
کیا حکومت کو کرائی گئی یقین دہانی کی خلاف ورزی کی گئی؟
عمران خان نے کتنے بجے پارٹی کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کے لیے کہا؟
کیا ریڈ زون میں گھس جانے والا ہجوم منظم تھا؟
کیا پولیس نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کی؟ کتنے مظاہرین ریڈ زون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؟
کیا مظاہرین نے سکیورٹی بیریئرز کو توڑا؟ کتنے عام شہری ہلاک یا زخمی ہوئے اور ہسپتال پہنچے یا گرفتار کیے گئے؟ کیا کوئی احتجاج کرنے والے یا پارٹی ورکرز جی جائن اور ایچ نائن سیکٹر کے درمیان گراؤنڈ پہنچا؟ 
سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا گیا کہ ’ہم یہ مایوسی کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ عدالت کی جانب سے نیک نیتی سے کی گئی کوشش کا احترام نہ کیا گیا۔ حالانکہ اس کا مقصد دو مخالف فریقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا تھا تاکہ عوام کے مفادات اور آئین میں دیے گئے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔‘
عدالتی فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت درخواست دائر کی جس میں شکایت تھی کہ تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے قبل وفاقی حکومت نے راستے بند کردیے ہیں۔
یاد رہے کہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے راستوں کی بندش کے باعث شہریوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں جن کی آئین کے آرٹیکل 9 اور 15 ضمانت دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ فوٹو: اردو نیوز

عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران جماعت کی قیادت نے یقین دہانی کرائی کہ احتجاجی ریلی پرامن ہوگی جس پر عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے انتظامیہ کو جگہ کے تعین اور سکیورٹی کے انتظامات کی ہدایت کی۔
فیصلے کے مطابق عدالت نے تمام سیاسی فریقین اور احتجاج کرنے والے کارکنوں سے پرامن رہنے کے لیے بھی کہا۔
عدالتی حکم نامہ 25 مئی کی شام چھ بجے جاری کیا گیا جس کے بعد رات ساڑھے دس بجے حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے ایک متفرق درخواست دائر کی۔
درخواست میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت خاص طور پر عمران خان کی جانب سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کارکنوں کو ریڈ زون کے حساس علاقے ڈی چوک پہنچنے کے لیے کہا گیا۔ 

جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ

پانچ رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے چار ججز کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے لکھا کہ عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی گئی۔
انہوں نے لکھا کہ ’عدالتی فیصلے کے بعد عمران خان نے خطاب میں کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کر دیا ہے اب کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی اس لیے سارے پاکستانیوں سے کہہ رہا ہوں کہ آج شام اپنے شہروں میں بھی نکلیں۔ اور اسلام آباد اور پنڈی میں پوری طرح ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کریں۔‘
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ عمران خان کی مذکورہ بالا تقریر کھلی عدالت میں پروجیکٹر کی سکرین پر چلائی گئی اور ان کے کنڈکٹ کے ساتھ اس کو دیکھتے ہوئے میری رائے ہے کہ یہ کافی ہے کہ بظاہر انہوں نے اس عدالت کے حکم نامے کی خلاف ورزی کی۔‘

شیئر: