Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ظہور الٰہی سے مونس الٰہی تک: چوہدری خاندان کے سیاسی داؤ پیچ

چوہدری شجاعت حسین، نواز شریف حکومت کے دو مرتبہ وزیر داخلہ رہے (فائل فوٹو: اے ایف پی))
پاکستان کی سیاست میں متحرک چند بڑے خاندانوں کی اجارہ داری کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس اجارہ داری کو موروثی سیاست سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
ان موروثی سیاسی خاندانوں میں بھٹو خاندان، شریف خاندان اور گجرات کا چوہدری خاندان قابل ذکر ہیں۔ ان خاندانوں کی سیاست نے کئی مرتبہ ملکی تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا۔
ان خاندانوں کے اندر سیاسی اختلافات نے ہمیشہ ہی شہ سرخیوں میں جگہ پائی ہے۔ جیسے حال میں گجرات کے چوہدری خاندان کے اندر پیدا ہونے والے سیاسی اختلافات کا اظہار خود خاندان کے نوجوان ارکان اسمبلی نے سوشل میڈیا کے ذریعے کیا۔
اس خاندان کی سیاسی تاریخ کا آغاز چوہدری ظہور الٰہی سے ہوتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل چوہدری ظہور الٰہی نے ایک پولیس کانسٹیبل کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا لیکن تقسیم ہند کے بعد اپنے بڑے بھائی چوہدری منظور الٰہی کے ساتھ مل کر ٹیکسٹائل کے شعبے میں کاروبار کا آغاز کیا۔
انہوں نے 1958 میں سیاست میں قدم رکھا اور جلد ہی پاکستان نے بڑے سیاست دانوں میں شمار ہونے لگے۔
چوہدری ظہور الٰہی پاکستان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل بھی رہے اور 1962 میں پہلی مرتبہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
وہ دوسری مرتبہ 1972 میں اسمبلی میں پہنچے تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا۔ اس دوران وہ گرفتار بھی ہوئے اور انہیں پانچ سال کی سزا بھی ہوئی۔
سنہ 1981 میں انہیں لاہور میں قتل کر دیا گیا جس بعد چوہدری خاندان کی دوسری نسل نے سیاست اور کاروبار دونوں کو سنبھال لیا۔
چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الٰہی تھے جبکہ منظور الٰہی کے بیٹے چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔

ظہور الٰہی کے قتل کے بعد چوہدری خاندان کی دوسری نسل نے سیاست اور کاروبار دونوں کو سنبھال لیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

دونوں کزنز نے پہلے ہی دن اپنے سیاسی طور طریقے وضع کر لیے۔ چوہدری شجاعت نے قومی اسمبلی کی سیاست میں قدم رکھا تو چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب کی سیاست کو اپنا ہدف بنایا۔
80 کی دہائی میں دائیں بازو کی سیاست کرتے کرتے دونوں کزن بالآخر مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر پہنچ گئے۔
چوہدری شجاعت حسین، نواز شریف حکومت کے دو مرتبہ وزیر داخلہ رہے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کی نظریں پنجاب کی وزارت اعلٰی پر تھیں۔ سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی نے ظہور الٰہی کی سیاست کو دوام بخشا اور جلد ہی ملک کے فیصلہ سازوں میں شمار ہونے لگے۔ 1997 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ پرویز الٰہی کی شریف خاندان سے دلی عداوت اس وقت شروع ہوئی جب نواز شریف نے شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلٰی بنا دیا۔ چوہدری پرویز الٰہی خود کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار سمجھتے تھے۔‘
چوہدری پرویز الٰہی کا یہ خواب جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا دور میں پورا ہوا۔
جنرل پرویز مشرف نے شریف حکومت ختم کی تو انہیں سیاسی سہارا پنجاب کے چوہدریوں نے دیا اور مسلم لیگ ق کی بنیادی رکھی اور پورے پانچ سال ملک کے حکمران رہے۔

سلمان غنی کے مطابق پرویز الٰہی کی شریف خاندان سے دلی عداوت اس وقت شروع ہوئی جب نواز شریف نے شہباز شریف کو پنجاب کا وزیراعلٰی بنا دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس خاندان میں فیصلہ سازی کی طاقت ہمیشہ چوہدری شجاعت کے پاس رہی اور کبھی بھی ان کے درمیان سیاسی اختلاف نہیں دیکھا گیا۔

سیاسی اختلاف کا پس منظر

چوہدری خاندان کے درمیان موجود سیاسی اختلاف کا پس منظر ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے جڑا ہوا ہے۔
سیاسی پنڈت یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس کی وجہ اس خاندان کی نوجوان نسل ہو سکتی ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’میں ذاتی طور پر اس کو اختلاف نہیں سمجھتا، بس دونوں بھائیوں نے اپنا کام بانٹ لیا ہے۔ اس خاندان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور وہ کبھی بھی اس پر سمجھوتہ نہیں کریں گے کہ یہ خاندان سیاسی طور پر مستقل بٹ جائے۔‘
’ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ نوجوان نسل کا کچھ اپنا کردار بھی ہے اور وہ اب خاندانی فیصلوں پر دباؤ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی نے جو بھی فیصلہ لیا وہ مونس الٰہی کی ایما پر لیا کیونکہ وہ عمران خان کے حمایتی ہیں۔‘
چوہدری خاندان کی اب تیسری نسل سیاست میں ہے۔ مونس الٰہی جو کہ چوہدری پرویز الٰہی کے بیٹے ہیں وہ دو مرتبہ 2008 اور 2013 میں پنجاب اسمبلی کے ممبر رہے ہیں جبکہ موجودہ قومی اسمبلی کے ممبر 2018 کا الیکشن جیت کر بنے۔

جنرل پرویز مشرف نے شریف حکومت ختم کی تو انہیں سیاسی سہارا پنجاب کے چوہدریوں نے دیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس خاندان کے دوسرے نوجوان چوہدری سالک حسین ہیں جو چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے ہیں اور اس وقت شہباز شریف حکومت کے وزیر ہیں۔
انہوں نے سیاست میں قدم ہی 2018 میں رکھا اور حلقہ این اے 65 چکوال سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
چوہدری خاندان کے سیاست میں تیسرے نوجوان حسین الٰہی ہیں جو چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے تیسرے بھائی وجاہت حسین کے بیٹے ہیں۔
چوہدری وجاہت حسین نے سیاست میں قدم 2002 میں رکھا اور مسلسل دو بار انتخابات جیت کر ممبر قومی اسمبلی رہے، تاہم 2013 میں وہ الیکشن ہار گئے۔
سنہ 2018 میں انہوں نے خود الیکشن لڑنے کے بجائے اپنے بیٹے حسین الٰہی کو سیاست میں آگے کیا اور یوں وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
صحافی اجمل جامی کا خیال ہے چوہدری خاندان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اتنی بڑی سیاسی تقسیم کا تاثر سامنے آیا ہو۔
’ظہور الٰہی سے لے کر اس خاندان کی وضع داری اور مصالحت پسندی زبان زد عام رہی ہے۔ جب خاندان کی سیاسی باگ دوڑ چوہدری شجاعت حسین کے ہاتھ آئی تو وہ شجاعت فارمولے کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ہر مشکل کا کوئی نہ کوئی فارمولہ نکال لیتے ہیں۔ وہ اکبر بگٹی کی ہلاکت ہو یا پرویز مشرف کے سیاسی بھنور، آصف علی زرداری کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے چوہدری پرویز الٰہی کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنانا ہو یا پھر عمران خان سے سیاسی راہ و رسم ہر دفعہ شجاعت فارمولے نے اپنا کام دکھایا۔‘

سلمان غنی کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی نے جو بھی فیصلہ لیا وہ مونس الٰہی کی ایما پر لیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اجمل جامی کا کہنا تھا کہ ’میری خبر کے مطابق اب بھی چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری وجاہت حسین سر جوڑ کے بیٹھنے لگے ہیں۔ دیکھیے اس بار کیا شجاعت فارمولہ نکلتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چوہدریوں کے اندر موجودہ سیاسی اختلاف کی خبریں اس خاندان کی تیسری نسل کے ساتھ جوڑی جا رہی ہیں۔ آپ دیکھیں عمران خان کی حمایت کا فیصلہ چوہدری پرویز الٰہی کا اپنا نہیں تھا اس کی ذمہ داری مونس الٰہی پر عائد کی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں تیسری نسل کی سیاسی اٹھان کی ڈائنامکس اپنے بزرگوں سے مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ تھوڑا جذباتی پن ہے جس نے بہرحال ایک پیچیدگی ضرور پیدا کر دی ہے۔‘
سیاسی ماہرین کے مطابق اگر چوہدری خاندان کسی نکتے پر متفق نہیں ہوتے جس کے امکانات ان کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت کم ہیں، تو چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے چوہدری سالک حسین اپنا مستقبل دوبارہ ن لیگ کے ساتھ منسلک کر لیں گے، جبکہ چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی اور حسین الٰہی عمران خان کی سیاست میں وزن ڈال دیں گے۔
یہ بھی آرا آر ہی ہیں کہ آصف علی زرداری کا حالیہ دورہ لاہور پرویز الٰہی کو اپنے کیمپ میں لانے کی آخری کوششوں کا حصہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بغیر کسی حیل حجت کے چپکے سے ختم کروا دی گئی۔

شیئر: