سپریم کورٹ نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل حکومتی شخصیات کو ہر دفعہ بیرون ملک جانے سے پہلے وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ ’جو لوگ خود مستفید ہو رہے ہیں وہ رولز میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جب تک حکومت اس حوالے سے قانون سازی نہیں کر لیتی یہ طریقہ کار رائج رہے گا۔
مزید پڑھیں
-
لانگ مارچ سے پہلے سپریم کورٹ کی وضاحت درکار ہے: عمران خانNode ID: 676146
سپریم کورٹ میں تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے کہا کہ ’عدالت کی اجازت سے میری جگہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان دلائل دیں گے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ ’سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اٹارنی جنرل آفس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوا۔ ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ کمیٹی کا بھی گزشتہ روز اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کے تمام سوالات اور آبزرویشنز کو سامنے رکھا گیا۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ’کابینہ کمیٹی کی میٹنگ منٹس کہاں ہیں؟‘ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اجلاس کل ہوا ہے، میٹنگ منٹس ایک دو روز میں مل جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کی ہدایت کی ہے۔ اٹارنی جنرل آفس نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے متعلق ایس او پیز بنا کر تمام اداروں کو بھجواا دیے ہیں۔ ای سی ایل سے نکالے گئے تمام ناموں کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ نیب اور ایف آئی اے سے مشاورت کے بعد رولز بنائے جائیں گے۔‘
جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا ای سی ایل رولز کی کابینہ نے منظوری دی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’اب یہ معاملہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی میں زیرغور ہے۔‘
