پاکستان کی وفاقی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ حکومت نے بحریہ ٹاؤن کی برطانیہ میں ضبط کی گئی رقم سے متعلق تصفیہ کر کے ریلیف دیا اور الزام عائد کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق خاتون اول کے نام منتقل کی ہے۔
وفاقی کابینہ کی جانب سے منگل کو ہونے والے اجلاس کے بعد خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ دستاویزات بھی منظرعام پر لائی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
ان دستاویزات میں سے اُس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل ہے جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاون اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی گئی۔
اس نوٹ کے مطابق ’14 دسمبر 2018 کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پاکستانی شہریت رکھنے والے علی ریاض ملک اور مبشرہ ملک کے 20 ملین برطانوی پاؤنڈ مشکوک ٹرانزیکشن کے تحت منجمند کیے۔ جس کے بعد این سی اے نے مذکورہ شہریوں کے خلاف کیسز، انکوائریز اور تحقیقات کے حوالے سے تفصیلات کے لیے رابطہ کیا۔ ایسیٹ ریکیوری یونٹ اور دیگر متعلقہ اداروں نے برطانوی ایجنسی کو متعلقہ ریکارڈ اور تفصیلات فراہم کیں۔‘
شہزاد اکبر کی جانب سے سابق وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے نوٹ کے مطابق ’نیشنل کرائم ایجنسی نے مذکورہ خاندان کے بینک اکاؤنٹس اور حال ہی میں لندن میں خریدی گئی وین ہائیڈ پراپرٹی سے متعلق تفتیش کا آغاز کیا۔ نتیجتاً 12 اگست 2019 کو این سی اے نے مذکورہ خاندان کے برطانیہ کے مختلف بینک اکاؤنٹس میں موجود 119 ملین برطانوی پاؤنڈز بھی منجمند کر دیے۔‘
وزیراعظم کو لکھے گئے نوٹ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس دوران سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے خلاف قواعد زمین کے حصول سے متعلق کیس کا فیصلہ بھی دیا۔ جس میں بحریہ ٹاؤن انتظامیہ کو مقررہ مدت میں رقم جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
’اسی فیصلے کی روح کے مطابق مدعی (بحریہ ٹاؤن) نے این سی اے سے برطانیہ میں اپنی لیگل ٹیم کے ذریعے رابطہ کیا اور عدالت سے باہر تصفیہ کی پیشکش کی۔ جس کے تحت تمام منجمند اکاؤنٹس میں موجود 139.7 ملین برطانوی پاؤنڈز سپریم کورٹ کے فیصلے کے روشنی کے مطابق واجب الادا رقم کی صورت میں پاکستان واپس لانے کی پیشکش کی۔‘
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’معاہدے کے مطابق مدعی (ملک ریاض خاندان) لندن کی ون ہائیڈ پارک کی پراپرٹی بھی فروخت کے لیے ایک آزاد ایجنٹ کے حوالے کرے گا اور اس سے حاصل کی گئی تمام رقم دو سال کے اندر ریاست پاکستان کے حوالے کرے گا اور یہ رقم بھی مذکورہ بالا معاہدے کی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کے کے تحت واجب الادا رقم میں جمع ہوگی۔‘
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنہ 2018 میں بحریہ ٹاؤن کراچی کی جانب سے خلافِ قواعد زمین کے حصول کے متعلق مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ کو سات برس کی مدت میں 460 ارب روپے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
سابق وزیراعظم کو لکھے گئے نوٹ کے مطابق ’تفتیش اور قانونی چارہ جوئی میں اس کیس کو طے ہونے میں پانچ سے سات سال لگ سکتے ہیں جبکہ وکلا کے اخراجات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ اس طویل قانونی چارہ جوئی کا نتیجہ این سی اے یا حکومت پاکستان کے حق میں آتا ہے یا نہیں۔ حکومت پاکستان پہلے ہی یہ درخواست کر چکی ہے کہ یہ رقم پاکستان واپس بھیجی جائے اور این سی اے مدعی کے ساتھ معاہدے کے تحت رقم پاکستان واپس بھیجنے پر راضی ہوچکی ہے۔‘
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’این سی اے کی پالیسی کے مطابق معاہدے کی شرائط اور تفصیلات خفیہ ہیں اور قانونی مجبوری کے بغیر منظرعام پر نہ لائی جائیں۔ معاہدہ این سی اے اور مدعی کے درمیان ہے تاہم حکومت پاکستان کو رازداری کے معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے جس کے تحت معاہدے کی تفصیلات پبلک نہ کی جا سکیں۔‘
نوٹ کے آخری پیرے میں لکھا گیا ہے کہ ’حکومت پاکستان کی جانب سے رازداری کے معاہدے کی وفاقی حکومت کی جانب سے منظوری ضروری ہے۔ اس لیے وفاقی کابینہ سے اس خفیہ ڈیڈ کی منظوری لی جائے۔‘
’تحریک انصاف نے بحریہ ٹاون کو ریلیف دیا‘
حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے 50 ارب روپے غیرقانونی طور پر برطانیہ منتقل کیے جنہیں منجمند کر لیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے یہ رقم واپس لانے کے بجائے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا۔‘
حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’بحریہ ٹاؤن کے جو پیسے برطانیہ میں پکڑے گئے وہ سپریم کورٹ کی فیصلے کے بعد واجب الادا رقم میں ایڈجیسٹ کر دیے گئے تھے۔‘
ایسیٹ ریکوری یونٹ کے سابق چیئرمین مرزا شہزاد اکبر کا کیا کہنا ہے؟
اس حوالے سے سابق وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘آج امپورٹڈ کابینہ کے ارکان نے 2019 میں ملک فیملی اور این سی اے کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔‘
اپنے ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’2018 میں این سی اے نے برطانیہ میں 20 ملین کی ٹرانزیکشن کے خلاف اثاثہ منجمد کرنے کا حکم حاصل کیا، یہ رقم لندن پراپرٹی 1 ہائیڈ پارک کے خلاف حاصل کردہ قرض تھی جو اس سے قبل شریف خاندان سے خریدی گئی تھی۔ تفتیش کے دوران اے آر یو سے مدد طلب کی گئی جو کہ قانون کے مطابق فراہم کی گئی تھی۔‘
Today imported cabinet members tried to mislead public on settlement agreement between Malik family and NCA in 2019 n it’s relation with cabinet minutes, for clarity below are some facts:
In 2018 NCA secured assest freezing order against a transaction of 20 million in uk 1/5— Mirza Shahzad Akbar (@ShazadAkbar) June 14, 2022
انہوں نے کہا کہ ‘بعد میں این سی اے نے اعتراف کیا کہ برطانیہ میں رکھی گئی رقم کے پیچھے کوئی جرم نہیں ہے، لہٰذا ملک خاندان نے این سی اے کے ساتھ تصفیہ کے ذریعے ون ہائیڈ پارک فروخت کر کے رقم پاکستان کو واپس بھیجی۔‘
بحریہ ٹاؤن کو ریلیف کے بدلے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو اراضی عطیہ کرنے کا الزام
دوسری جانب حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئی ہے۔
دستاویزات کے مطابق 24 مارچ 2021 کو بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم سواہا میں 458 کنال کی اراضی عطیہ کی گئی۔ اس عطیہ کی گئی اراضی کا معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط کیے گئے ہیں۔