ہوٹل پر ’چائے بناتے بناتے‘ ایم فل کرنے والے بھائیوں کی کہانی
ہوٹل پر ’چائے بناتے بناتے‘ ایم فل کرنے والے بھائیوں کی کہانی
پیر 18 جولائی 2022 6:47
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز
طاہر عالم اور وحید عالم دو بھائی ہیں۔ ان کا آبائی تعلق خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع شانگلہ سے ہے۔ ان کے والدین نے بہتر مستقبل کی تلاش میں شانگلہ کے بلند و بالا پہاڑوں سے نکل کر لاہور کی طرف ہجرت کی۔
طاہر اور وحید کے چھ بھائی اور چھ بہنیں ہیں اور وہ سب کسی نہ کسی شعبے میں اپنا لوہا منوانے کی تگ و دو کر رہے ہیں لیکن طاہر عالم اور وحید عالم اپنے بھائیوں میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے ممتاز ہیں۔
طاہر عالم نے میٹرک اور انٹر تک تعلیم پرائیوٹ حاصل کی۔
2015 میں وفاق المدارس سے ایم اے عربی اور اسلامیات کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے اسلامی افکار اور تہذیب میں ایم فل تک تعلیم حاصل کی۔
اسی طرح وحید عالم نے بھی میٹرک اور انٹر کی تعلیم پرائیویٹ طور پر حاصل کی جبکہ مذہبی درس گاہ جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاؤن لاہور سے ایم اے کیا اور بعد میں اپنے بھائی طاہر عالم کے ساتھ ایم فل ڈگری کا حصول ممکن بنایا۔
لیکن ان کی کامیابیوں کی داستان اتنی سادہ نہیں ہے۔
ان کے والدین شانگلہ سے حصول رزق کی خاطر لاہور تو آگئے لیکن ان بھائیوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مناسب وسائل فراہم نہیں کر سکے۔
مجبوراً ان بھائیوں نے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے خوانچہ فروشی شروع کی اور لاہور کی گلیوں میں سر پر خوانچے اٹھا کر بسکٹ اور کیک بیچتے رہے۔
دن میں کام، رات کو رت جگے
سال 2009 میں مشترکہ خاندان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے چائے کا ایک ڈھابہ چلانے والے ان کے تایا کا انتقال ہوا تو ان بھائیوں کو وہاں کام کرنا پڑ گیا۔
اب ان کے ذمے نہ صرف اپنے تعلیمی اخراجات تھے بلکہ انہیں پورے خاندان کی کفالت بھی کرنا تھی۔
طاہر عالم کہتے ہیں کہ ایم فل کے دوران وہ ہوٹل پر کام کرتے رہے اور ہوٹل سے فارغ ہو کر یونیورسٹی پڑھنے کے لیے جاتے تھے۔
’تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ ڈیوٹی کے اوقات کار اور پڑھائی کے لیے جانا خاصا مشکل تھا۔ تین دن مسلسل جاگتے رہنا پڑتا تھا لیکن ہم نے حوصلہ نہیں ہارا اور ایم فل کی ڈگری کا حصول زندگی کا مقصد بنایا اور بالآخر کامیابی حاصل کی۔‘
طاہر عالم بتاتے ہیں کہ دوران تعلیم ایک آزمائش ایسی آئی کہ ان کے ہوٹل کے قریب ایک سڑک پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے وہ کئی ماہ بند رہا۔ اسی دوران کورونا وبا نے بھی ان کا کام مزید کئی مہینوں کے لیے متاثر کیا۔
اس دوران طاہر کے ذہن میں خیالات آتے رہے کہ ڈگری چھوڑ دینی چاہیے لیکن انہوں نے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے اس مشکل وقت کو بھی سیکھنے کا ذریعہ بنایا۔
’ہوٹل میں تعلیمی حوالوں سے متوسط یا اس سے کم درجے کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا جبکہ یونیورسٹی میں ایک تعلیمی ماحول بنا تھا۔ ہم دونوں جگہوں پر سیکھنے کی کوشش کرتے۔‘
چائے بناتے بناتے پی ایچ ڈی
طاہر عالم اب ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
’میں کوشش کر رہا ہوں کہ پی ایچ ڈی کے لیے کوئی سکالرشپ مل جائے لیکن یہ ملے یا نہ ملے، میں پی ایچ ڈی ہر حال میں مکمل کروں گا۔‘
’یہی ہوٹل اور چائے ماضی میں بھی مددگار ثابت ہوئے ہیں اور مستقبل میں بھی انہی سے مدد لوں گا۔‘
وحید عالم بھی اپنے بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلتے چلتے ایم فل تک تعلیم مکمل کر چکے ہیں۔
وحید اپنی زندگی کو جہد مسلسل سے عبارت قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم کے رستے میں آنے والی تمام مشکلات کو خود کو تحریک دلانے کا ذریعہ سمجھا اور یوں ہوٹل کے کام کے ساتھ ساتھ ایک مقامی بیکری میں بھی کام کیا تاکہ تعلیمی اخراجات پورے ہوسکیں۔
وہ بھی کام کے ساتھ پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تحقیق کر کے مقالات شائع کیے جائیں۔
’ہم چائے بناتے بناتے پی ایچ ڈی ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر لیں گے۔ یہ تمام مشکلات روئی کے پہاڑ جیسی ہیں۔‘