لیڈر طلبہ کو طبلہ سمجھتا ہے اور طبلے کی تھاپ پر پورے ملک کو وجد میں لانے کی کوشش کرتا ہے، سیاستداں جیل چلا جائے تو طلبہ کا چین بھی رخصت ہوجاتا ہے
* * *محمد قمراعظم۔ جدہ* * *
جداہوں طلباء سیاست سے تو ہو جاتی ہے ناکامی نعرے سنئے جو طلباء سے ٹکرائے گا وہ پاش پاش ہوجائے گا۔(گویا طلباء کنکریٹ کی دیوار ہیں۔) طلباء نے ملک بنایا، طلباء نے ہی اسے بچایا۔ (یعنی طلباء مزدور ہیں) طلباء نے تحریک چلائی، ناکامی نہ پاس آئی۔
(کیوں بھائی! طلباء کو کتنا چڑھاؤ گے؟) طلباء اٹھو اور پوری دنیا پر چھاجاؤ!! (مطلب یہ کہ طلباء یا تو بادل ہیں یا پھر نحوست جو چھاجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں) صاحبو ! آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہر وہ سیاستدان جو کہ اپنی جماعت کی طلباء تنظیم میں شرکت کرتا ہے یا پھر کسی کالج کا اسے دورہ پڑتا ہے یعنی کسی کالج کا دورہ کرنے کا دورہ پڑتا ہے ، وہ اسی طرح کے جوشیلے نعرے لگوانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے اور طلباء اس سیاسی لیڈر کے حق میں نعرے لگالگا کر اپنا گلا خشک کرلیتے ہیں ۔ لیڈر اپنی سیاسی پٹاری کھول کر اس میں سے قسم قسم کے وعدے ، قسمیں، ترغیبات اور نادیدہ خدمات کے سروں پر مشتمل بین نکال کر بین کرنا شروع کردیتا ہے یعنی بین بجانا شروع کرتا ہے اور چونکہ طلباء یا نوجوان طبقہ بھینس نہیں ہوتا اس لئے اس پر بین کے خاطر خواہ اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ وہ اس سریلی دھن پر جھومنے لگتے ہیں اور لیڈر کے ہاتھ چومنے لگتے ہیں ۔ لیڈر کے لئے وہی وقت ہوتا ہے جب وہ طلباء کو طبلہ بناکر خوب بجاتا ہے اور اس طبلے کی تھاپ پرپورے ملک کو وجد میں لانے کی کوشش شروع کردیتا ہے ۔ وہ طلباء کے کام میں جو چاہئے اور جسقدر چاہے اپنی مرضی کا بیان انڈیل دیتا ہے اور ان سے جیسا چاہے کام لے سکتا ہے ، پھر وہ چاہے ’’دمادم مست قلندر کرنا چاہے، کسی کے نعرے وجن گے‘‘کا آلاپ کروانا ہو’’ہوجمالو کی دھن پر رقص ہو یا ’’آوے ہی آوے‘‘ کا ورد ، طلباء سیاسی لیڈر کو مایوس نہیں ہونے دیتے۔
ایسے میں اگر لیڈر جیل چلا جائے تو طلباء کا چین بھی رخصت ہوجاتا ہے اور یوں اسٹریٹ پاور کی سیاست جنم لیتی ہے۔ قارئین ! یہاں تو یہ حال ہے کہ جو سیاست دان اپنی جیبوں اور بینک اکاؤنٹ کی طرح سب سے زیادہ سڑکیں بھرلیتے ہیں وہی کامیاب و کامران قرار پاتے ہیں اور سب کاقرار لوٹ لیتے ہیں اور اسی لئے اپنے جلسوں میں یا پھر اخباری بیانات کے ذریعے طلباء کے جوش کو ابھار کر کبھی پتھراؤ، کبھی جلاؤ اور گھیراؤ کروا کر ہر صورت سڑکوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور سڑکوں کو اپنی اقتدار کی کرسی کی طرح عزیز جانتے ہیں۔ صاحبو ! آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ، ہر سیاستدان اپنے جلسے کو لاکھوں بلکہ کروڑوں کا جلسہ قرار دیتا ہے اور دوسرے سیاستدان کے جلسے پر قہقہے لگا کر اسے ’’فلاپ جلسی‘‘کہتا ہے ۔ میں جب یہ سب دیکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو مجھے یہ سب فلمی فلمی سا لگتا ہے جیسے ایک ہیروئن دوسری ہیروئن کی فلم کو فلاپ کہتی ہے اور خود کو نمبرون گردانتی ہے۔ اس کی نظر میں باقی تمام ہیروئنز زیرو قرار پاتی ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں ان سیاسی ہیروز کی بوکھلاہٹ دیکھنے کے قابل ہوتی ہے انہیں اپنی ہار مخالفین کی دھاند لی نظر آتی ہے ۔ ایک سیاستدان اپنی نظر ٹیسٹ کروانے گئے تو ڈاکٹر نے کہا ’’ مبارک ہو سر ! آپ کے چشمے کا نمبر کم ہوگیا ہے ۔ انہوں نے جھٹ جواب دیا ، نمبر کم نہیں ہوسکتا ، یقینا نمبر بڑھا ہوگا، دوبارہ گنو، میرے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں لوگ سیاستدان کس طرح بنتے ہیں ۔ یہ تو خبر نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ وہ سیاستدان بننے کے بعد بگڑتے ضرور ہیں ۔
سوائے اپنی بیویوں پر بگڑنے کے ۔ کہیں پڑھا تھا کہ جب انگریز کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی تو وہ کلب چلا جاتا ہے، فرانسیسی کی اپنی بیوی سے نہ بنے تو خیر چھوڑئیے ایڈیٹر صاحب یہ لائن کاٹ دیں گے ۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ امریکی کی اپنی بیوی سے نہ نبھے تو وکیل کے پاس اور اگر پاکستانی کی اپنی بیوی سے نہ بنے تو سیاست میں آجاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو تحقیق کرلیں مگر پھر اس تحقیق کو اپنے تک ہی محدود رکھئے گا ، مبادا تحقیق شائع ہونے کے بعد آپ محدود کردئیے جائیں۔ ہماری سیاست میں مارچ کے مہینے کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، اگر مہینہ مارچ کا نہ بھی ہو تو لمبا مارچ کرکے یعنی لانگ مارچ کرکے مارچ کے مہینے کو یاد کیا اور کروایا جاتا ہے ، سیاستدانوں کو مارچ کا مہینہ اسقدر پسند ہے کہ اسے ڈبل کردیتے ہیں یعنی ڈبل مارچ حالانکہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لانگ ، ڈبل یا کوئیک مارچ کے بغیر بھی اپنی جون بدلی جاسکتی ہے ۔ اس لئے جون کو آزمانے میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ لاکھوں کا جلسہ جون میں بھی نکالا جاسکتا ہے ۔ بس لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کی کال دیدیں پھر دیکھئے جن علاقوں ، قصبوں کی آبادی میں دس بیس ہزار نفوس پر بھی مشتمل ہوگی وہاں سے بھی لاکھوں کا مجمع نکل آئے گا۔ آزمالیں۔