سعودی عرب میں اٹھایا جانے والا ایک ایک قدم روشن مستقبل کی طرف ہے جس کا عملی ثبوت دا لائن شہر ہے۔
سبق ویب سائٹ کے مطابق دا لائن شہر انسانی ترقی کا کمال اور ایک انوکھے اور منفرد انداز کا شہر ہو گا جس کی لمبائی 170 کلومیٹر ہو گی اور جو 95 فیصد قدرتی ماحول کے تحفظ کے لیے ہو گا۔ اس کی بنیاد انسان ہو گا جو اپنے قدرتی ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہو گا۔
یہ ایک سمارٹ شہر ہو گا جس میں انسان کا بحیثیت انسان خیال رکھا گیا ہے جبکہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر اس کی ضروریات کی تکمیل ہو گی۔
دا لائن سیدھی لکیر پر مبنی شہر ہے جس کے دور ترین مقام تک پہنچنے کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہو گی خاص طور پر جب شہر میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام متعارف ہو گا۔
دا لائن سڑکوں، گاڑیوں اور کاربن کی آلودگی سے پاک ہو گا۔ یہ مستقبل کے ایسے شہروں کا مثالی نمونہ ہو گا جسے پوری دنیا میں اپنایا جائے گا۔
منصوبہ نیوم کے 95 فیصد قدرتی مناظر کے تحفظ میں مدد گار ثابت ہو گا۔ 100 فیصد جدت پذیر توانائی پر منحصر ہو گا۔
’دور ترین مقام تک پہنچنے کے لیے زیادہ وقت کی ضرورت نہیں ہو گی‘
اس کا دارو مدار انسان کی صحت اور خوشحالی پر رکھا گیا ہے۔ روایتی شہروں کے برعکس بنیادی ڈھانچے اور ٹرانسپورٹ کو مقدم رکھنے کے بجائے انسان کی صحت کو فوقیت دی جائے گی۔
سطح سمندرسے500 میٹر بلندی پر واقع ہو گا۔ شہر کا مجموعی رقبہ 34 مربع کلومیٹر ہو گا۔ اس میں 90 لاکھ افراد آباد ہوں گے۔
اس کا موسم سال بھر مثالی ہو گا۔ اس کے شہری قدرتی مناظر سے ہر وقت لطف اندوز ہوں گے۔
خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں دا لائن وژن 2030 کی عملی مثال ہو گا جس میں قدرتی ماحولیات کے تحفظ کی ضمانت ہو گی۔
’سطح سمندرسے 500 میٹر بلندی پر واقع ہوگ، مجموعی رقبہ 34 مربع کلومیٹر ہو گا‘ ( فوٹو: واس)
دنیا میں موسمی تغیر اور تبدیلی کے اسباب سے پاک دا لائن شہر ان تین تجاویز میں سے ایک ہے جو سعودی عرب کی طرف سے موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے پیش کی گئی ہیں جن میں گرین ریاض، گرین سعودی عرب اور گرین مشرق وسطی شامل ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے دا لائن کا تصور پیش کرتے وعدہ کیا تھا کہ اس کا حقیقی محور انسان ہو گا اور یہ جدید ترقیاتی معاشروں کے لیے ایک مثال ہو گا۔
آج دا لائن کا ڈیزائن پیش کر کے یہ وعدہ پورا کر دیا گیا ہے۔ اس سے شہر کا کثیر منزلہ داخلی ڈھانچہ اجاگر ہو گا۔ یہ روایتی افقی شہروں کے مسائل سے آزاد ہو گا۔ یہ قدرتی ماحول کے تمام ذرائع کے تحفظ اور تمدنی ترقیاتی عناصر کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی ایک مثال ہو گا۔