’امریکہ کو کیسے جواب دیا جائے‘ ڈرون حملے کے بعد طالبان کی مشاورت
’امریکہ کو کیسے جواب دیا جائے‘ ڈرون حملے کے بعد طالبان کی مشاورت
جمعرات 4 اگست 2022 8:55
ڈرون حملے کے بعد کابل میں طالبان حکام کے درمیان مشاورت کی طویل نشستیں ہوئیں۔ فوٹو: اے ایف پی
کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد طالبان رہنما سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ امریکہ کو اس کا جواب کیسے دیا جائے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بدھ کو بھی ایک اہم اجلاس کابل میں ہوا۔
خیال رہے اتوار کو کابل پر ڈرون حملے کے بعد امریکی حکام کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنی رہائش گاہ کی بالکونی میں کھڑے تھے۔
اس واقعے کو ایک دہائی قبل القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد طالبان جنگجوؤں کے لیے اہم دھچکا اور امریکہ کی اہم کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک سینیئر امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’امریکہ افغانستان میں القاعدہ کے مزید ارکان کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے گا اور یقینی بنایا جائے گا امریکہ پر دہشت گرد حملوں کے لیے اس ملک کو پھر سے استعمال نہ کیا جا سکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’ہم ہوشیار رہیں گے اور جہاں ضروری ہو گا کارروائی کریں گے، جیسا کہ ہم نےرواں ہفتے کیا ہے۔‘
انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ’امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی، تاہم صرف اسی صورت میں جب ان سے امریکی مفادات کو تقویت ملے گی۔‘
دوسری جانب اسلامک گروپ کے ارکان جو سالہا سال سے القاعدہ کے اتحادی ہیں، کی جانب سے اتوار کو ڈرون حملے کی تصدیق کی گئی تھی تاہم ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ گھر خالی تھا۔
طالبان کے ایک اہم عہدیدار نے روئٹرز کو بتایا ’حکام کے اعلٰی سطحی اجلاس ہوئے ہیں جن میں مشاورت کی گئی کہ آیا امریکہ کو حملے کا جواب دینا چاہیے، اور اگر طے پاتا ہے، تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا۔‘
طالبان رکن کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ’دو روز تک حکام کے درمیان طویل مشاورت ہوئی۔‘
طالبان رکن نے اس امر کی تصدیق نہیں کی کہ جس گھر کو ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا اس میں ایمن الظواہری موجود تھے۔
ایک سال قبل امریکی حمایت یافتہ حکومت کو شکست دے کر اقتدار میں آنے والے گروپ کا حملے پر ردعمل اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے کیونکہ دوسری جانب یہ اربوں ڈالر کے منجمد فنڈز تک رسائی حاصل کرنے کا بھی خواہاں ہے۔
فنڈز کی بحالی کے حوالے سے امریکی عہدیدار کا کہنا تھا ’امریکہ طالبان پر دباؤ ڈالتا رہے گا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم پر سے پابندی اٹھائیں اور ایسے اقدامات کریں جن سے معیشت بہتر ہو۔‘ ان کا اشارہ افغان مرکزی بینک کی طرف تھا۔
اہلکار کے مطابق ’واشنگٹن انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھے گا اور طالبان پر زور دیتا رہے گا کہ وہ 2020 میں اغوا کیے گئے مارک فریچس نامی امریکی شہری کو رہا کریں، اسلامک سٹیٹ کی علاقائی برانچ کو ختم کریں اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کو روکیں۔‘
خیال رہے مصر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایمن الظواہری 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں میں ملوث تھے اور دنیا کے مطلوب ترین افراد میں شامل تھے۔