روس نے منگل کے دھماکوں میں کسی طیارے کو نقصان پہنچنے یا حملے کی تردید کی ہے۔ تاہم یوکرینی حکام نے روس کی اس وضاحت کا مذاق اڑایا ہے کہ تمباکو نوشی کرنے والے ایک اہلکار کی غفلت سے ساکی ایئر بیس پر گولہ بارود کو آگ لگی اور تباہی ہوئی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھی اس وضاحت میں کوئی منطق نہیں اور یوکرین فضائی اڈے پر حملے کے لیے اینٹی شپ میزائلوں کا استعمال کر سکتا تھا۔
فوجی تجزیہ کار اولیہ زہدانوف کے مطابق ’سرکاری طور پر کیئف نے اس حوالے سے خاموشی اختیار کی ہے لیکن غیر سرکاری طور پر فوج نے تسلیم کیا ہے کہ یہ یوکرین کا حملہ تھا۔‘
اگر یوکرینی فورسز ان دھماکوں کی ذمہ دار تھیں، تو یہ جزیرہ نما کریمیا، جس پر سنہ 2014 میں کریملن نے قبضہ کر لیا تھا، میں کسی روسی فوجی مقام پر پہلا معروف بڑا حملہ ہو گا۔
کریمیا دونوں ممالک کے لیے بڑی تزویراتی اور علامتی اہمیت رکھتا ہے۔ کریملن کا مطالبہ کہ یوکرین جزیرہ نما کو روس کا حصہ تسلیم کرے، لڑائی کے خاتمے کے لیے اس کی اہم شرائط میں سے ایک ہے، جبکہ یوکرین نے تمام مقبوضہ علاقوں سے روسیوں کو نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
دھماکوں کے بعد یوکرینی صدر ولودمیر زیلنسکی کا کہنا تھا کہ ’روس کی یوکرین اور تمام آزاد یورپ کے خلاف جنگ کا آغاز کریمیا سے ہوا تھا اور اس کا لازمی طور پر اختتام بھی کریمیا کی آزادی سے ہو گا۔‘
روسی فضائی اڈے پر ہونے والے دھماکوں میں ایک شخص ہلاک اور 14 زخمی ہوئے ہیں۔ بحیرہ اسود کے جزیرہ نما پر موجود یہ اڈہ یوکرین کی قریب ترین پوزیشن سے کم از کم 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ہائی موبیلٹی آرٹیلری راکٹ سسٹم لانچروں میں استعمال کے لیے مغرب کی طرف سے فراہم کردہ میزائلوں کی حد سے باہر ہے۔
یوکرین نے بارہا ان لانچروں کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا مطالبہ کیا ہے جو 300 کلومیٹر دور تک ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان دھماکوں نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ کیئف نے ان میزائلوں کو حاصل کر لیا ہے۔
اس حوالے سے اولیہ زہدانوف کا کہنا تھا کہ یوکرینی فورسز نیپچون یا ہارپون اینٹی شپ میزائلوں سے بھی فضائی اڈے کو نشانہ بنا سکتی تھیں۔