پولیس اہلکاروں پر فائرنگ انسداد پولیو مہم کے دوسرے دن ہوئی۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے مقامی پولیس اہلکار محمد عمران نے بتایا کہ کسی بھی پولیو ورکر کو نقصان نہیں پہنچا۔
انسداد پولیو ٹیم اور پولیس اہلکار موٹر سائیکل پر سفر کر رہے تھے۔ ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی۔
28 جون کو شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل میں پولیو ٹیم پر حملہ ہوا تھا جس میں ایک پولیو ورکر سمیت دو پولیس اہلکاروں سمیت ہلاک ہوئے۔
جنوری میں بھی ضلع کوہاٹ میں انسداد پولیو ٹیم پر فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا تھا۔
خیبر پختونخوا میں 15 اگست سے انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوا ہے۔
دس روزہ انسداد پولیو مہم کے دوران 66 لاکھ بچوں کو پولیو کے دو قطرے پلانے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کے مطابق پولیو مہم کے دوران 32 ہزار انسداد پولیو ورکرز مہم میں حصہ لے رہے ہیں جن کی حفاظت کے لیے 40 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہوں گے ۔
گزشتہ ماہ پشاور، بنوں، نوشہرہ اور سوات کے سیوریج سیمپلز میں وائلڈ پولیو وائرس ون کی تصدیق ہوئی تھی۔
ان متاثرہ یونین کونسلز کے لیے خصوصی مہم 25 اگست سے شروع ہو رہی ہے۔
دوسری جانب پولیو قطروں سے انکاری والدین کو قائل کرنے کے لیے محکمہ صحت نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق شمالی وزیرستان، بنوں، لکی مروت اور جنوبی اضلاع میں والدین کو راضی کرکے ان کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں رواں برس اب تک 14 پولیو کے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 13 کیسز شمالی وزیرستان سے جبکہ ایک کیس لکی مروت سے رپورٹ ہوا۔
پولیو وائرس صرف پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔ 2021 میں پاکستان میں صرف ایک کیس رپورٹ ہوا تھا۔