چوہے کا ’مُشک‘ اور انگریزی کے ’مسل‘ سے کیا تعلق ہے؟
چوہے کا ’مُشک‘ اور انگریزی کے ’مسل‘ سے کیا تعلق ہے؟
پیر 22 اگست 2022 7:03
عبدالخالق بٹ
سنسکرت کے موش اور انگریزی کے ماؤس میں بھی تعلق نکلتا ہے (فوٹو: پکسابے)
اترا تھا رگ و پے میں مرے، زہر کے مانند
وہ درد کی صورت مرے پہلو سے اٹھا تھا
یہ پُر درد شعر’شاہد عشقی‘ کا ہے اور اس میں ترکیب ’رگ و پے‘ دلچسپی کا خاصا سامان لیے ہوئے ہے۔ اس فارسی ترکیب کا پہلا لفظ ’رگ‘ وہی ہے جو اردو و ہندی میں ’نس‘ اور عربی میں’حبل، ورید، شریان اور عِرق‘ ہے۔
یہاں ’رگ‘ اور اُس کے عربی مترادفات کی وضاحت ضروری ہے۔ یوں تو ’رگ‘ کا بنیادی کام خون کو جسم کے مختلف حصوں سے دل تک پہنچانا ہوتا ہے اور اس کے برعکس دل سے خون کو دیگر اعضائے بدن تک پہنچانے کا کام ’شریان‘ کرتی ہے، چوں کہ ہر دو میں خون گردش کر رہا ہوتا ہے، اس لیے اس فرق کو خاطر میں لائے بغیر ’شریان‘ کو بھی ’رگ‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ دیکھیں مرزا غالب کیا کہہ رہے ہیں:
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ ’رگ‘ کے مقابل فارسی میں رائج ’شریان‘ کا لفظ عربی زبان سے مستعار ہے۔ یہی معاملہ اردو کا بھی ہے، تاہم ہندی میں شریان کو ’دھمنی / धमनी‘ کہتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد اب عربی کے ’حبل‘ پر غور کریں، اس کے بنیادی معنی ’رسی، ڈور اور سُتلی‘ کے ہیں، چوں کہ جسم کی رگیں بظاہر ڈور کی طرح ہوتی ہیں، یوں انہیں بھی مجازاً ’حبل‘ کہا جاتا ہے۔ اس بات کو ’حَبْلِ الْوَرِيدِ‘ یعنی ’شہ رگ‘ کی ترکیب سے سمجھا جا سکتا ہے۔
اب ’حبل‘ بمعنی رسی، ڈور اور سُتلی‘ کو ذہن میں رکھیں اور انگریزی لفظ کیبل (cable) پر غور کریں، آپ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس ’کیبل‘ کی اصل عربی کا ’حبل‘ ہے۔
اوپر ’رگ‘ کے عربی مترادفات میں ’ع‘ کے زیر کے ساتھ لفظ ’عِرق‘ کا ذکر ہوا ہے۔ یہ ’عَرق / عَرَق‘ بمعنی ’پسینہ‘ سے جدا لفظ ہے۔
ایک عام مرض ’عِرقُ النساء‘ کے معنی پر غور کریں، جیسا کہ اس مرض کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ اسے ’عِرق‘ یعنی ’رگ‘ سے نسبت ہے۔
طبی اصلاح میں ’عِرقُ النسا‘ اُس رگ کا نام جو سُرین سے ٹخنے تک جاتی ہے۔ اس مرض کے دوران درد پٹھوں سے ٹخنوں تک پہنچتا ہے، اور چلنے پھرنے میں دشواری پیدا کرتا ہے اس لیے اسے ’لنگڑی کا درد‘ بھی کہتے ہیں۔
عام طور پر اس مرض کو غلط طور پر’ع‘ کے زبر کے ساتھ ’عَرقُ النساء‘ کہا جاتا ہے یوں اس کے معنی ’عورت کا پسینہ‘ بنتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ ایک مضحکہ خیز صورت ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اسے درست طور پر ’ع‘ کے زیر کے ساتھ ’عِرقُ النساء‘ کہا جائے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مرض تو مَردوں کو بھی لاحق ہوتا ہے، پھر اس کی نسبت نسا یعنی عورت کی طرح کیوں کیا جاتی ہے؟
عرض ہے کہ مَردوں کی بہ نسبت یہ مرض خواتین میں عام پایا جاتا ہے، لہٰذا اسی نسبت سے یہ ’عِرقُ النساء ‘ کہلاتا ہے، اور یہ ایک عمومی حقیقت ہے، اس کو مزید سمجھنا ہو تو ترکیب ’لنگڑی کا درد‘ پر غور کریں، اس میں بھی ’لنگڑی‘ کا لفظ اس کے نسائی ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
عربی میں بہت سے معنی میں استعمال ہونے والے ’عِرق‘ کی جمع ’عروق، اعراق اور عراق‘ آئی ہے۔ اب اس میں پہلے لفظ ’عروق‘ کو رگوں کے معنی میں علامہ اقبال کے ہاں ملاحظہ کریں:
عروق مردۂ مشرق میں خونِ زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
رگوں اور نسوں کے پُرپیچ جال اور اُس کے پیچیدہ تذکرے کے ساتھ اب منفرد لہجے کے شاعر عمار اقبال غزل کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں اس کے بعد ترکیب ’رگ و پے‘ کے جُز ثانی پر بات ہو گی:
یُوں بُنی ہیں رَگیں جِسم کی
ایک نس، ٹس سے مس اور بس
ترکیب ’رگ و پے‘ کا ’پے‘ وہی ہے جو اردو و ہندی میں ’پٹھا‘ کہلاتا ہے، جب کہ اسے عربی میں ’عصب و عضل‘ اور انگریزی میں مسل (muscle) کہا جاتا ہے۔
ایک نادر و نایاب خوشبو ’مُشک‘ کو عربی میں ’مسک‘ کہا جاتا ہے، عربی کا یہی ’مسک‘ انگریزی میں ’musk‘ ہے۔ اس فارسی ’مُشک‘ اور انگریزی مسل (muscle) یعنی پٹھے میں بظاہر کوئی نسبت نہیں ہے، مگر یہ دونو اصلاً ایک ہی لفظ سے متعلق ہیں۔
غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ چور کو سنسکرت میں ’موش‘ کہتے ہیں، کیوں کہ چوہا بھی گھروں میں چوروں ہی کی طرح آتا جاتا ہے، سو اس نسبت سے ’چوہا‘ سنسکرت میں مجازاً ’موش‘ اور ’موشک‘ کہلاتا ہے۔
چوہے کے معنی میں سنسکرت کا ’موش‘ فارسی میں بھی ’موش‘ ہی ہے، جب کہ انگریزی تک پہنچتے پہنچتے موش، ’ماؤس / Mouse‘ ہوگیا ہے۔
تفصیل کا موقع نہیں تاہم اتنا سمجھ لیں کہ ’موش‘ ہند یورپی زبانوں کے گروہ میں شامل متعدد زبانوں میں مختلف تلفظ کے ساتھ موجود ہے۔ مثلاً یہ بیلاروسی میں مِشکا / Мышка، بلغاریائی زبان میں میشکا / Мишка، بوسنیائی اور کروشیائی زبان میں ’مِش‘، جرمن زبان میں ماؤس / Maus اور ڈینیش زبان میں مؤس / Mus ہے۔
یہاں تک پہنچ کر آپ سوال کر سکتے ہیں کہ اس سب کے باوجود ’موش‘ بمعنی چوہے کا ’مُشک‘ اور مسل (muscle) سے کیا تعلق ہے؟
عرض ہے کہ جب مخصوص ہرن کے نافہ میں مُشک تیار ہو چکتا ہے، تب اُس کا نافہ پُھول جاتا ہے، اور دکھنے میں ’موشک‘ یعنی چوہا سا معلوم ہوتا ہے اور ’موشک‘ کی نسبت سے ’مُشک‘ کہلاتا ہے۔
رہی بات مسل (muscle) کی، تو اس انگریزی لفظ ماؤس / mouse کی اصل لاطینی کا مسکولیس (musculus) ہے، جس کے معنی ’چھوٹا چوہا‘ ہیں۔ اس وضاحت کے ساتھ کسی کسرتی بدن کے حامل شخص کے عضلات پر غور کریں، آپ عضلات کے اتار چڑھاؤ کو چھوٹے چوہے کا سا پائیں گے۔ ضمناً عرض ہے کہ لاطینی کا mus اصلاً فارسی اور سنسکرت کے ’موش‘ ہی کی ایک صورت ہے۔
اب ’موش‘ بمعنی چوہے کو میر تقی میر کے یہاں ملاحظہ کریں، جو اپنی بلی کے ’موشِ دشتی‘ یعنی جنگلی چوہے سے ڈر جانے کا حال بیان کر رہے ہیں: