انڈیا کی ریاست اترپردیش کے ضلع مرادآباد میں ایک گھر میں باجماعت نماز پڑھنے والے 26 مسلمان شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
انڈین ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ کی مطابق یہ واقعہ اترپردیش کے ضلع مراد آباد کے ایک مقامی گاؤں دلہے پور میں پیش آیا ہے جہاں ایک گھر میں مسلمان شہری باجماعت نماز پڑھ رہے تھے کہ پڑوسی نے ان کے خلاف شکایت درج کرادی۔
نمازیوں کے خلاف مقدمہ انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 2-505 کے تحت نفرت اور دشمنی پھیلانے کے جرم میں درج کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
گڑگاؤں میں نماز جمعہ پر تنازع، ’شاید یہ وقت ملک چھوڑ دینے کا ہے‘Node ID: 632151
نمازیوں کے خلاف مقدمہ کروانے والے شہری چندر پال سنگھ کا کہنا ہے کہ ’یہ لوگ باجماعت نماز کے ذریعے لوگوں میں نفرت اور دشمنی پھیلا رہے ہیں۔‘
ویب سائٹ کے مطابق اس گاؤں میں کوئی مسجد نہیں ہے جس پر شہریوں نے مسلمانوں کے گھروں میں نماز ادا کرنے پر اعتراض کیا ہے۔
باجماعت نماز پڑھنے والے 26 مسلمان شہریوں میں 16 افراد کو مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے جبکہ 10 افراد کی شناخت نہیں بتائی گئی۔
اترپردیش کے ضلع مرادآباد میں مسلمان شہریوں کے خلاف باجماعت نماز پڑھنے پر مقدمہ درج ہونے کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر شدید ردِعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔
صحافی کاوشک راج کہتے ہیں کہ ’26 افراد کے خلاف اتھارٹی سے بغیر اجازت لیے اور پڑوسیوں کی خواہش پر باجمات نماز پڑھنے پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، کسی ایک مذہب کو مجرم بنانا ایسا ہوتا ہے۔‘
"26 people booked for holding a mass gathering to offer namaz at a house without prior permission from authorities and allegedly against neighbour's wishes".
This is what criminalisation of an entire religion looks like. pic.twitter.com/4PEgspsqni
— Kaushik Raj (@kaushikrj6) August 29, 2022
سری نگر سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اور انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی عمر عبداللہ نے اس پر کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ اگر کسی پڑوسی نے اپنے 26 دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہَوَن رکھا ہوتا تو سب کو بالکل قبول ہوتا، یہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کا مسئلہ نہیں بلکہ نماز پڑھنے کا مسئلہ ہے۔‘
I’m sure if one of the neighbours had a hawan with 26 friends & relatives that would be perfectly acceptable. It’s not the “mass gathering” that is the problem, it’s the offering of namaz. https://t.co/DUrI1EqVlI
— Omar Abdullah (@OmarAbdullah) August 29, 2022
شبانہ مِیر لکھتی ہیں کہ ’ایک گاؤں جس میں کوئی مسجد نہیں ہے، وہاں 26 مسلمانوں پر گھر میں نماز ادا کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔‘
’پولیس والوں کی بڑی تعداد غریب مسلمانوں کو پکڑنے کے لیے تلاش کر رہی ہے، جی ہاں آپ نے صحیح پڑھا، روزانہ کی مسلمانوں کی عبادت کرنا ایک جرم بن گیا ہے۔‘
In a village that has no mosque, 26 Muslims are charged with PRAYING IN A HOUSE. Heavy cop presence is searching for the poor Muslims "absconding" after praying.
You read that correctly. Praying the daily Muslim prayer is a crime.#IndianMuslimsUnderAttackhttps://t.co/MtBTIz8niQ https://t.co/KSk30wEoAo— Climate reparations for the global south (@ShabanaMir1) August 28, 2022