Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آواز اٹھاؤ گے تو گھر تباہ‘، انڈیا میں مسلمانوں کو ’بلڈوزر جسٹس‘ کا سامنا

پیغمبر اسلام کے خلاف بی جے پی کے رہنماؤں کے توہین آمیز تبصرے کے بعد مسلمانوں میں شدید ردعمل پیدا ہوا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے متعدد شہروں نے مسلمانوں کے مکانات اور کاروباری عمارات گرائے جانے کے خلاف احتجاج پھوٹ پڑے ہیں۔
ناقدین حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے ان اقدامات کو ’بلڈوزر جسٹس‘ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد مسلمان اقلیت کے ایکٹوسٹس کو سزا دینا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اتوار کو حکومتی اہلکاروں نے انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیشں میں جاوید احمد نامی شخص کا گھر بلڈورز سے مسمار کردیا تھا۔
جاوید احمد پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کا مسلمانوں کے اس احتجاج سے تعلق ہے جو جمعے کو پرتشدد مظاہرے میں بدل گیا تھا۔ سنیچر کے روز جاوید احمد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ انڈیا کی حکمراں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو ترجمانوں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے کے بعد انڈین مسلمانوں میں شدید اشتعال پیدا ہوا۔
بی جے پی نے ان دو ترجمانوں میں سے ایک کو پارٹی سے برخاست جبکہ دوسری کی رکنیت معطل کردی تھی اور بیان جاری کیا تھا کہ ’پارٹی کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔‘
گذشتہ ہفتے ریاست اترپردیش کے دو دیگر شہروں میں بھی احتجاج کرنے والے مظاہرین کی املاک کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کیا گیا جبکہ اس سے قبل اپریل میں انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں مسلمانوں کی دکانیں تباہ کردی گئی تھیں۔
ہندو قوم پرستی پر گہری نظر رکھنے والے نریندر مودی کے سوانح نگار نیلجان مکھوپادہائے نے بدھ کو ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’(مسلمانوں کی) املاک کو مسمار کرنا آئینی روایات اور اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
اس سے قبل منگل کو انڈیا کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججوں اور وکلا سمیت 12 نمایاں شخصیات نے چیف جسٹس کو ان املاک کی مسمارگی کا نوٹس لینے کے لیے ایک خط لکھا ہے۔

مودی کے سوانح نگار نیلجان مکھوپادہائے نے کہا کہ ’(مسلمانوں کی) املاک کو مسمار کرنا آئینی روایات اور اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اپنے خط میں ان اقدامات کو غیرقانونی اور ’ایک قسم کی ماورائے قانون اجتماعی سزا‘ قرار دیا ہے اور اترپردیش  کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال کے ذریعے اختلافی آوازوں کو دبا رہی ہے۔
جمعے کو رانچی میں بی جے پی کے ترجمانوں کی جانب سے توہین آمیز ریمارکس پر احتجاج کرنے والے مظاہرین میں سے دو پولیس سے جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ دوسری جانب اب تک درجنوں مسلمان مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
کئی مسلم ممالک نے بی جے پی کے رہنماؤں کے توہین آمیز تبصروں پر سخت تنقید کی ہے اور مظاہرین نے انڈین مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کیا ہے جو انڈیا کے لیے سفارتی سطح پر ایک نیا چیلنج بن رہا ہے۔
واضح رہے کہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کی جانب سے تشدد کے واقعات میں 2014 میں اس وقت تیزی آنا شروع ہوئی جب نریندر مودی پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔

رانچی میں جمعے کو توہین آمیز ریمارکس پر احتجاج کرنے والے مظاہرین میں سے دو پولیس سے جھڑپوں کے دوران ہلاک ہوگئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اترپردیش میں مسلمانوں کی املاک کو اس وقت مسمار کرنا شروع کیا گیا جب ہندو سادھو کی سے سیاست دان بننے والے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حکم جاری کیا تھا کہ ان تمام ’غیر قانونی املاک کو مسمار کیا جائے تو جمعے کو ہونے والے مظاہروں میں شامل افراد کی ہیں۔‘
یوگی آدتیہ ناتھ کے میڈیا مشیر نے سنیچر کو اپنے ایک ٹویٹ میں بلڈوزر کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے اس کے ساتھ لکھا تھا کہ ’فسادی یاد رکھیں کہ ہر جمعے کے بعد سنیچر کا دن بھی آتا ہے۔‘
پیپلز ویجیلنس کمیٹی آن ہیومن رائٹس کے بانی رکن لینن رگوواندی نے کہا ہے کہ ’یہ ایک دھمکی ہے کہ اگر آپ نے حکومت یا بی جے پی کے خلاف آواز اٹھائی تو آپ کا گھر تباہ کردیا جائے گا۔‘

شیئر: