Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیا ہوا؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی جانب سے جمع کرائے گئے دوسرے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعرات کو تین گھنٹے کی طویل سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ دیا کہ عمران خان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔
عمران خان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کے خلاف بیان پر توہین عدالت کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کی۔
بینچ میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار بھی شامل ہیں۔
عمران خان توہین عدالت کیس کے عدالتی معاونین مخدوم علی خان، منیر اے ملک، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف بھی عدالت پہنچیں۔
عمران خان بینچ کے روبرو پیش ہوئے جہاں ان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ 

عدالتی معاونین نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنے کی استدعا کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’کلبھوشن جادھو سماعت کے لیے آ رہا ہے‘

سماعت کے لیے وقت اڑھائی بجے کا مقرر تھا تاہم سابق وزیراعظم عمران خان دو بج کر 34 منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچے۔
کمرہ عدالت میں پہنچنے سے پہلے احاطہ عدالت میں میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’اگر مجھے جیل بھیجا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہو جاوں گا۔‘
کمرہ عدالت میں پہنچنے پر صحافیوں سے مختصر گفتگو میں عمران خان نے سخت سکیورٹی سے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشن جادھو سماعت کے لیے آ رہا ہے۔ پتہ نہیں انہیں کس چیز کا خوف ہے۔ میں نے زندگی میں اتنی پولیس کبھی نہیں دیکھی۔‘

’عمران خان کرمنل توہین کے مرتکب ہوئے ہیں‘

سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل حامد خان پیش ہوئے اور کہا کہ گزشتہ روز میں نے عدالت کی آبزرویشن کے مطابق جواب جمع کرا دیا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے کو ختم کر دیا جائے۔ 31 اگست کی سماعت کے دوران عدالت نے دانیال عزیز اور طلال چوہدری کیسز کے حوالے دیے تھے۔ میں عدالت کو بتاؤں گا کہ کیسے ہمارا کیس سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے مختلف ہے۔ میں عمران خان کیس کے سپریم کورٹ کے فیصلے بھی عدالت کے سامنے رکھوں گا۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین فیصلوں کو ہائی لائٹ کرنا مقصد تھا۔
’فردوس عاشق اعوان کیس میں تین قسم کی توہین کا ذکر ہے۔ طلال چوہدری کیس کرمنل توہین عدالت نہیں تھی۔ کرمنل توہین عدالت میں آپ یہ توجیہہ پیش نہیں کر سکتے کہ میری بات کا یہ مطلب یا ایسا ارادہ نہیں تھا۔‘

حامد خان نے کہا کہ ہمارے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل احترام ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے حامد خان کو مخاطب کر کے کہا کہ گزشتہ سماعت پر بھی آپ کو سمجھایا تھا ’یہ کرمنل توہین عدالت ہے، آپ نے زیر التوا مقدمہ سے متعلق بات کی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ کا جواب ہم نے تفصیلی پڑھا ہے۔ دانیال عزیز اور طلال چودھری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی۔ ان کے خلاف عدالت کو سکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا۔ ہم اظہار رائے کی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی کسی جج کے فیصلے سے متاثرہ بھی ہے تو اس کا ایک پراسیس ہے، حامد خان صاحب! آپ کو پچھلی بار بھی کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ جوڈیشری ہمارے لیے ریڈ لائن ہے، یہ بتا دیں کہ آپ نے جواب میں جواز پیش کرنے کی کوشش کی ہے؟‘
جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ ہم نے جواز پیش نہیں کیا بلکہ وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ہم نے قانون کے تحت جانا ہے، بہت ہی شدید نوعیت کا جرم کیا گیا لیکن آپ کو اس کا احساس قطعاً نہیں ہے، کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ہے؟ آپ نے اپنے جواب میں توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی، کیا کوئی سابق وزیراعظم یہ توجیہہ پیش کر سکتا ہے کہ مجھے قانون کا پتا نہیں تھا؟‘
’آپ کو پتہ ہے کہ اتنی تقسیم ہے سوسائٹی میں ورکرز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟ ہم نے وکلا تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے۔‘

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’بہت ہی شدید نوعیت کا جرم کیا گیا لیکن آپ کو اس کا احساس قطعاً نہیں ہے۔‘ (فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ)

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ’یہ بتا دیں کہ فیصلے جلسے میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ 70 سال میں کچھ اچھا نہیں ہوا۔ کیا سپریم کورٹ کے جج سے متعلق بیان ہوتا تو یہی جواب جمع ہوتا؟ کیا ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے لیے بھی یہی جواب ہوتا؟ افسوس ہوا جواب دیکھ کر جہاں آپ توجیہات پیش کر رہے ہیں۔‘

’عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کر لی گئی‘

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہمارے لیے سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ کے ججز قابل احترام ہیں۔ ہم نے لکھا کہ جج کے احساسات کو ٹھیس پہنچی تو اس پر شرمندگی ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’کسی جج کے کوئی جذبات نہیں ہوتے۔ یہ جذبات کا معاملہ نہیں بلکہ جج کے بارے میں اشتعال انگیزی پھیلائی گئی ہے۔ وہ جج کہیں جا رہی ہوں تو ان کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ یہ صرف خاتون جج کے خلاف بیان نہیں اشتعال دلانے کا کیس ہے۔ کیا کوئی جلسے میں لیگل ایکشن کی دھمکی لگا سکتا ہے؟‘
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’سیاسی لیڈر پبلک میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی بھی کیسے دے سکتا ہے؟ آپ سیکشن نائن پڑھیں اس میں لیگل ایکشن کا طریقہ دیا گیا ہے۔ فورمز قانون میں بتائے گئے ہیں۔ فورم پبلک میٹنگ نہیں ہے۔‘
حامد خان نے جواب میں کہا کہ قانونی کارروائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ’ہم نے قانونی کارروائی قانون کے دائرے سے باہر جا کر تو نہیں کرنی تھی۔ عمران خان نے کوئی دھمکی نہیں دی شاید محسوس زیادہ کر لی گئی۔‘
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ عوامی جلسے میں جو کچھ کہا گیا وہ آپ چاہیں تو ہم اسے یہاں چلا سکتے ہیں، ’عمران خان نے اپنے رویے سے بھی یہ نہیں ظاہر کیا کہ انہیں افسوس ہے۔‘ تقریر اور توہین عدالت کیس کے بعد بھی تقریروں میں توجیہات پیش کی جاتی رہیں۔

عمران خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا لگ رہا تھا جیسے کلبھوشن جادھو سماعت کے لیے آ رہا ہے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اپنے دلائل کے دوران حامد خان نے فردوس عاشق اعوان کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’اس پر نہ جائیے گا یہ فیصلہ آپ کے خلاف جائے گا، فردوس عاشق اعوان کیس کا فیصلہ تب دیا گیا جب وہ وزیراعظم کی معاون خصوصی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عدالت نے فیصلے میں لکھا تھا کہ فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کی لیکن انہیں علم نہیں تھا۔ اب اس فیصلے کے بعد آپ یہ دلیل تو نہیں دے سکتے کہ آپ کو پتا نہیں تھا۔‘

عمران خان کا رویہ اور جواب دونوں نہیں بدلے: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے اپنے دلائل میں کہا کہ میرے پاس عمران خان کی تقریر کا ٹرانسکرپٹ ہے۔ یہ تقریر اس تقریر کے بعد کی ہے جس میں معزز جج کو دھمکی دی گئی۔ میں سی ڈی اور ٹرانسکرپٹ ریکارڈ پر پیش کر دوں گا۔ عمران خان نے دوبارہ انہی خاتون جج کا حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کہ جب میں نے بات کی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دی۔ 
انہوں نے کہا کہ یہ چاہتے ہیں سپریم کورٹ نے ایک بار معاف کر دیا تھا تو بار بار معاف کریں۔ عمران خان کے جواب کے ساتھ کوئی بیان حلفی نہیں ہے۔ عمران خان کو شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ دینا چاہیے تھا۔
اٹارنی جنرل نے دلیل دی کہ ’عمران خان نے شرمناک کا لفظ استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے نوٹس لیا۔ آٹھ سال پہلے بھی عمران خان نے سپریم کورٹ سے معافی نہیں مانگی تھی۔ اس وقت بھی میں نے عمران خان کا یہی بیان سنا تھا۔ عمران خان اگر توہین آمیز الفاظ نہ کہتے تو آج یہاں کھڑے نہ ہوتے۔‘

عدالتی معاونین کی توہین عدالت کی جانب سے کارروائی کی مخالفت

عدالتی معاونین منیر اے ملک اور مخدوم علی خان نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو برداشت اور بڑے دل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاہم پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ 

منیر اے ملک نے کہا کہ ’الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’جب گفتگو کی گئی تو معاملے کا جج نے فیصلہ کر دیا تھا لیکن ہائی کورٹ میں زیر التوا تھا۔ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ توہین عدالت کا قانون استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔‘
’یہ درست ہے کہ توہین عدالت میں سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ توہین عدالت کا قانون مسلسل نمُو پذیر ہے۔ عدالت سے باہر کہی گئی کوئی بات اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ میں آخری شخص ہوں گا جو مانوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پر تقریر کا اثر پڑا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الفاظ افسوس ناک مگر انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں۔ توہین عدالت کی کارروائی دو چیزوں پر ختم ہو سکتی ہے، ایک معافی پر اور دوسرا کنڈکٹ پر کارروائی ختم ہوتی ہے۔ یہاں فوری طور پر کنڈکٹ میں عدالت کے لیے احترام کا اظہار کیا گیا۔‘
دوسرے عدالتی معاون مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’توہین عدالت کا قانون انصاف میں خلل ڈالنے سے متعلق ہے۔ مفاد عامہ انصاف کی فراہمی میں ہے تو اظہار رائے کی آزادی میں بھی ہے۔ امریکا میں صدر نے عدالتی فیصلے کو بدترین کہا تھا۔ وہاں عدلیہ نے گریز کا مظاہرہ کیا دوسرا راستہ نکالا وہ نکالتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا تھا؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ وہ توہین عدالت پر نہیں تھا، کانگریس کی توہین سے متعلق بات پر شاید معطل ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ اشتعال دلانے پر معطل ہوا تھا۔ لیڈر کا رول معاشرے میں اہم ہے جو معاشرے کو بدل سکتا ہے۔‘

جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ’سیاسی لیڈر پبلک میں کھڑا ہو کر لیگل ایکشن کی دھمکی بھی کیسے دے سکتا ہے؟‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ ’معاملہ سیاسی مقدمات کا ہو تو عدالتی فیصلے سے ایک پارٹی خوش اور دوسری ناراض ہوتی ہے، کوئی سیاسی رہنما زیرسماعت مقدمے پر کچھ بھی کہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پرکوئی اثر نہیں ہو گا۔‘
مخدوم علی خان نے عمران خان پر توہین عدالت کی کارروائی ختم کرنے کی رائے دے دی تو جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں ایک سیاسی رہنما کا کیس سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو پھر ہر شخص کے مساوی ہونے کا اصول کدھر جائے گا؟‘
تیسرے عدالتی معاون پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کو شوکاز نوٹس درست طور پر جاری ہوا۔ غیر مشروط طور پر معافی نہیں مانگی گئی۔ اگر غیر مشروط معافی مانگی جاتی تو میں بھی کہتا شوکاز نوٹس ختم کر دیں۔
بعدازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے یا نہ کرنے سے متعلق فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ دے دیا۔

’عمران خان کا جواب غیر تسلی بخش قرار‘

وقفے کے بعد لارجر بینچ کے ججز کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے متفقہ طور فیصلہ کیا ہے کہ عمران خان کا جمع کرایا گیا جواب غیر تسلی بخش ہے اور بینچ نے عمران خان پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔‘

عمران خان کی عدالت میں بات کرنے کی استدعا مسترد

اس سے قبل جب عمران خان کے وکیل حامد خان دلائل دے رہے تھے تو عمران خان نے اپنی لیگل ٹیم کے رکن شعیب شاہین ایڈووکیٹ کو دو مرتبہ روسٹرم پر حامد خان کے پاس بھیجا کہ وہ خود روسٹرم پر آ کر بات کرنا چاہتے ہیں لیکن حامد خان نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی۔ 

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ عمران خان کو شوکاز نوٹس کا جواب بیان حلفی کے ساتھ دینا چاہیے تھا۔ (فائل فوٹو: این ڈی یو)

جب تمام وکلا کے دلائل مکمل ہوگئے اور ججز وقفہ کے دوران کمرہ عدالت سے جانے لگے تو عمران خان اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور کہا کہ چیف جسٹس صاحب میں اپنے بیان کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تمام وکلا کے دلائل سن لیے ہیں اور تمام ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔ 

شیئر: