اگر عمران خان کو سزا یا نااہلی عدالتوں سے ہوتی ہے تو پی ٹی آئی کا پلان کیا ہوگا؟ فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان اقتدار سے نکلنے کے بعد بھی سیاست کا محور ہیں۔ عوامی مقبولیت کو الیکشن کے واضح نتائج میں تبدیل کرنے کا ان کا پرانا ہدف اب پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ الیکٹیبلز ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، وہ سہاروں سے آزاد ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس لیے باوجود حکومتی اقدامات اور قانونی کارروائیوں کے ان کا اعتماد اس وقت بلند ترین درجے پر ہے۔ اس اعتماد کے نتیجے میں غلطیوں کے امکان بھی بڑھ چکے ہیں اور حتمی ہدف بھی پورا نہیں ہو رہا۔
عوامی مقبولیت میں یہ پہلو نظر انداز ہو چکا ہے کہ بہرحال عمران خان اپنے خلاف عدم اعتماد میں حکومت کو نہیں بچا سکے۔ یہ علیحدہ پہلو ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد حکومت میں آنے سے ن لیگ کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان ہوا ہے۔ دوسری طرف وفاداری تبدیل کرنے والے سیاسی طور پر تنہا ہو چکے ہیں مگر جب تحریک عدم اعتماد آئی تو اس وقت بھی خان صاحب کے اعتماد میں ذرا لغزش نہیں آئی تاوقتیکہ کہ وہ وزیراعظم ہاؤس سے نکل کر بنی گالہ واپس پہنچ گئے۔
آج کی تاریخ میں بھی خان صاحب کو دہرے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک طرف پارٹی کا فارن فنڈنگ کیس ہے اور دوسری طرف اپنی نااہلی کا مقدمہ۔ ایک طرف توہین عدالت ہے تو دوسری طرف توشہ خانہ کا کیس۔ فوجداری مقدمات شاید خاص چیلنج نہ ہوں۔ یہ بھی تب اگر یہ سمجھا جائے کہ ضمانت اور متوقع گرفتاری سیاسی طور پر چیلنج نہیں بلکہ مقبولیت بڑھانے کا ایک موقع ہو گا۔
آج کی تاریخ میں خان صاحب پراعتماد ہیں کہ ان دونوں کیسز میں ان کو کوئی خطرہ نہیں۔ جبکہ اگر واقعات کا تسلسل دیکھیں تو پہلے خلاف توقع ان کی تقریر پر ہائی کورٹ کا نوٹس ہوا۔ اس کے بعد کچھ موقع ملا مگر اب ممکنہ طور پر فرد جرم لگنے والی ہے۔ یہ سب کچھ بڑی آسانی سے ڈیل کیا جا سکتا تھا مگر اعتماد اور جارحیت حالات کو اس مقام تک لے آئے ہیں۔
دوسرا کیس الیکشن کمیشن کے پاس ہے جو عمران خان کے واضح نشانے پر ہے۔ وہ وہاں سے اپنے خلاف فیصلے کے لیے تیار ہیں کہ اگر وہاں سے خلاف فیصلہ آیا بھی تو حتمی فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ اسی طرح توہین عدالت پر فیصلہ بھی عدالت عظمٰی میں ہی پہنچے گا۔ اعلٰی عدالتوں میں قانون کے ساتھ ساتھ سابقہ فیصلوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس لیے دوسری طرف ن لیگ کے توہین عدالت اور نااہلی کے متاثر رہنما بھی متحرک ہو کر بیانیہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس سارے ماحول میں خان صاحب کا پلان بی کیا ہے یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
عمران خان کا پلان اے تو شروع سے سامنے ہے اور وہ ہے حکومت کو الیکشن پر مجبور کرنا۔ اس کے لیے ایک لانگ مارچ ہوا جو کہ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوا۔ جلسوں کا ایک مرحلہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی طرف سے بار بار کال کا ذکر ہوتا ہے لیکن کچھ عرصے سے وہ حتمی کال دیتے دیتے رہ جاتے ہیں۔ موجودہ حالات میں اگلے سال کے شروع سے پہلے انتخابات کو امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔ اور وہ بھی کافی سارے دیگر عوامل سے مشروط ہے۔
اپنی موجودہ عوامی مقبولیت کے ساتھ اگر یہ حکومت اپنی مدت پوری بھی کرے تو بھی الیکشن عمران خان کے لیے کوئی چیلنج نہیں۔ وہ دو تہائی اکثریت کے لیے پر اعتماد ہیں۔ مگر سوال ہے کیسز اور دیگر عوامل کا جو آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھانا شروع کر رہے ہیں۔
اگر ان کو سزا اور نااہلی ہوئی تو ان کا پلان کیا ہو گا؟ ان کے وزرا اور وہ خود عوامی ردعمل کو اپنی قوت قرار دے رہے ہیں۔ کیا عوامی ردعمل سرکاری اور قانونی ردعمل پر حاوی ہو جائے گا؟
مائنس ون اور ٹیکنیکل ناک آؤٹ کا ذکر تو اب خود عمران خان بھی کر چکے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کا پلان بی فی الحال نظر نہیں آ رہا یا پھر پلان موجود ہے مگر ابھی سامنے نہیں لایا جا رہا۔ عوام کے ساتھ ساتھ تجزیہ کاروں کو بھی اس پلان بی کا انتظار ہے۔