عمران خان نے سیاسی ٹمپریچر کو کم نہیں ہونے دیا اور اس دوران سیاسی حریفوں پر دباؤ برقرار رکھا ہے۔ سیلاب کے بعد بھی انہوں نے سیاسی سرگرمیوں میں کمی نہیں کی بلکہ ساتھ امدادی سرگرمیوں کو بھی شامل کر لیا ہے۔
ان کی طرف سے عوامی دباؤ کی سمجھ بھی آتی ہے کہ ایک ایسا سیاستدان جو کہ ایک نہیں کئی اطراف سے نااہلی کا سامنا کر رہا ہو، جس پر ساتھیوں سمیت مقدمات قائم ہو رہے ہوں اور جس کی جماعت کو پابندی نظر آ رہی ہو، وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ عوام کو متحرک رکھے۔
اس ضمن میں ان کی طرف سے کی گئی کوششوں کے ثمرات بھی انھیں نظر آ رہے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان کا اصل ہدف اب بھی دور ہے۔ الیکشن سے کم پر وہ راضی ہوتے نظر نہیں آتے مگر الیکشن کی طرف مجبور کرنے کے حربے وہ تقریباً استعمال کر چکے ہیں۔
قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر بھی اور پھر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کر کے بھی۔ اب وہ لانگ مارچ کی کال کے دھمکی آمیز دعوے تو کر رہے ہیں مگر بظاہر اس کی توقع کم ہے۔
پنجاب میں حکومت ملنے کے بعد ان کا موجودہ سسٹم میں باقاعدہ رول بڑھ گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے تو مستعفی ہونے کا کبھی اشارہ تک نہیں دیا اور مسلم لیگ ق جس کا ابھی تک کوئی وزیر بھی نہیں، انہوں نے اتنی تگ و دو اسمبلی توڑنے کے لیے تو نہیں کی باوجود اس کے کہ وہ دو سیکنڈ میں اسمبلی توڑنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔
سیلاب کے بعد حکومت کے پاس انتظامی طور بھی ایک وجہ موجود ہے کہ اب زیادہ توجہ لوگوں کی آباد کاری کی طرف ہو گی۔ کیا عوامی دباؤ بڑھانے کو عمران خان کے پاس کوئی اور بھی راستہ ہے؟ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو وہ پٹاری میں سے کئی سرپرائز نکال چکے ہیں۔
حکومت یا پی ڈی ایم کے پاس بھی کھیل کا وقت کم ہے۔ حکومت لے کر جو گھاٹے کا سودا انہوں نے کیا اس کا ذکر روز ان کی اپنی صفوں میں سے ہوتا ہے۔
پنجاب حکومت کے جانے سے رہی سہی کسر بھی نکل گئی۔ وفاقی حکومت پہلے ہی صرف بری خبر کے لیے ہوتی ہے جبکہ عوام کے لیے اخراجات کی صورت میں ریلیف صوبائی حکومت کی طرف سے آتا ہے۔ وفاق میں بھی ن لیگ نے معیشت کی ذمہ داری لے کر بری خبروں کا نہ ختم ہونے والا خبر نامہ شروع کر رکھا ہے۔
سیاسی طور پر اس کا اثر لندن میں زیادہ محسوس ہو رہا ہے جہاں ایک اور بھی اضطراب ہے۔ نواز شریف اسحاق ڈار کے ہمراہ سزاؤں اور نااہلی کے خاتمے میں پیش رفت کے منتظر ہیں۔
اس پیش رفت کے لیے بھی اب کچھ ہی ہفتے کا وقت ہے۔ اور کچھ خبروں اور کچھ افواہوں کو اگر ملا کر پڑھا جائے تو ماضی اور مستقبل کی نااہلی کا آپس میں بھی کچھ تعلق ہے۔ برابری اور توازن حکومتی حلقوں کے آج کل پسندیدہ اہداف ہیں۔
پنجاب میں بھی ایک بار پھر ہلچل کی خبریں ہیں۔ اب جبکہ ضمنی الیکشن بھی ہو چکے اور عدالتی فیصلے بھی واضح ہیں، کیا یہ ہلچل چائے کے کپ والی ہلچل ہے یا پھر ایک بار پھر اقتدار کا میدان لگنے والا ہے؟ جو بھی ہے اس کے لیے وقت اب تھوڑا ہی ہے۔
یہ اسمبلی اگلے سال اگست میں اپنی مدت پوری کرے گی اور جب کیلنڈر پر 23 کا ہندسہ چڑھے گا تو پھر شاید قبل از وقت انتخابات کا جواز ہی موجود نہ رہے۔
فریقین کی یہی خواہش ہو گی کہ پنجاب کا تخت یا کرسی جو بھی کہیں، اس پر کمپرومائز نہ کریں اور کمپرومائز نہ کرنے کی جدوجہد اگر شروع ہوئی تو پہلے سے بھی بدتر ہو گی۔
اس سب کے بعد یہ بھی توقع ہو سکتی ہے شاید آخری راؤنڈ ہونا کھیل کے لیے بہتر ہے ہو کیونکہ بصورت دیگر تو کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اب یہ کھلاڑیوں پر منحصر ہے کہ وہ کھیل ختم کرنا چاہتے ہیں یا ایسے ہی چلانا چاہتے ہیں۔ عوام کو ہر دو صورتوں میں اندیشے ہی اندیشے ہیں۔