Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ ’مسائلِ تلفظ‘ یہ ترا بیان غالب

غالب جیسے بڑے شاعر نے دیدہ دانستہ یہ غلط فہمی پیدا کی کہ ’ذال‘ فارسی حرف نہیں ہے۔ (فائل فوٹو)
پانی سے سگ گَزیدہ ڈرے جس طرح اسد 
ڈرتا ہوں آئنے سے کہ مردم گَزیدہ ہوں
اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر آدم گزیدگی سے پیدا ہونے والی آدم بیزاری کی اُس شِدَّت کا اظہار ہے جب انسان خود سے بھی خوف کھاتا ہے۔ سردست اس شعر میں دلچسپی کا محور لفظ ’گَزیدہ‘ ہے جو فارسی مصدر ’گَزیدن‘ سے مشتق ہے جب کہ ’گزیدن‘ کے معنی ’کاٹنا اور ڈسنا‘ کے ہیں۔
یوں سگ گزیدہ کا مطلب کتے کا کاٹا ہوا اور مار گزیدہ کے معنی سانپ کا ڈسا ہوا ہیں۔ 
اردو زبان و بیان میں ’گزیدہ‘ سے بنی تراکیب کی فراوانی کی وجہ سے اس کے معنی متعین کرنے میں کبھی مشکل نہیں ہوئی بلکہ شب گزیدہ، خواہش گزیدہ، خلوص گزیدہ، زمانہ گزیدہ، خرد گزیدہ، روایت گزیدہ اور قمر گزیدہ کی سی خوبصورت تراکیب اردو لسانیت سے دلچسپی کا باعث بنتی رہیں۔
تاہم الجھن اُس وقت پیدا ہوئی جب ’برگزیدہ‘ کی ترکیب سے واسطہ پڑا۔ اس لیے کہ یہ ترکیب جس سیاق میں برتی جاتی ہے، اُس میں ’گزیدگی‘ یعنی کاٹنے اور ڈسنے کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا۔ یقین نہ آئے تو غالب کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
اہل ورع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے فرقے میں مَیں برگزیدہ ہوں
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ غالب کا شعرِ مذکور اُن کے ’غیرمتداول‘ کلام میں سے ہے۔ یعنی یہ اور اس جیسا دیگر کلام ’نسخۂ حمیدیہ‘ کے سوا کسی اور نسخے میں موجود نہیں۔
گمان ہے کہ ان اشعار کے دیوان سے اخراج کا سبب بعض تیکنیکی وجوہات رہی ہوں گی، مثلاً اسی شعر کے دوسرے مصرعے میں ’میں مَیں‘ کی تکرار میمنے کی پکار معلوم ہوتی ہے۔
’تکرارقبیح‘ کا یہ نظارہ بصورتِ ’پاپا‘ غالب کے درج ذیل مشہور شعر میں بھی کیا جاسکتا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب 
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

ایک دانشور نے کہا تھا بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیر ذکر تھا ’برگزیدہ‘ کا جو ’سگ گزیدہ و مار گزیدہ‘ کی موجودگی میں ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ ناچار استاد سے رجوع کرنے پر عقدہ کُھلا کہ ’کاٹنے اور ڈسنے‘ کا مفہوم رکھنے والے ’گزیدہ‘ کا تلفظ حرف اول پر ’زبر‘ کے ساتھ ’گَزیدہ‘ ہے، جب کہ ’برگزیدہ‘ میں شامل ’گزیدہ‘ کا پہلا حرف ’پیش‘ کے ساتھ  ’گُزِیدَہ‘ ہے، اور اس کے معنی ’چنیدہ، منتخب اور پسندیدہ‘ کے ہیں۔
بات یہ ہے کہ فارسی میں ’گَزِیدن‘ اور’گُزِیدن‘ دو الگ مصادر ہیں، نتیجتاً ظاہری مشابہت یا مماثلت کا یہ اثر ان اس سے مشتق الفاظ میں بھی موجود ہیں۔ اب آگے بڑھنے سے قبل ’برگُزدیدہ‘ کی رعایت سے نسیم دہلوی کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں:
چڑھتی ہے روز چادرِ گُل، جلتے ہیں چراغ
یہ ڈھیر ہے ضرور کسی برگُزیدہ کا
فارسی میں ’گَزِیدن‘ اور ’گُزِیدن‘ ہی کی طرح ’گزاردن‘ اور ’گذاردن‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ ان میں ’گزاردن‘ کے معنی ’ادا کرنا‘ جب کہ ’گذاردن‘ کے معنی ’ترک کرنا‘ کے ہیں۔
اردو میں یہ اور اِن سے مشتق الفاظ املا کی حد تک الجھن کا باعث بنتے ہیں۔ تلفظ کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اردو میں ’ذال‘، ’ظ‘ اور ’ض‘ تینوں کا تلفظ ’زے‘ کیا جاتا ہے۔
یادش بخیر ایک بار ’استاد‘ تحریر میں ’گذشتہ‘ دیکھ کر چونک اٹھے، بولے تمہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ یہ لفظ ’ذال‘ سے نہیں ’زے‘ سے ’گزشتہ‘ ہے۔ پھر مزید انکشاف کیا کہ اردو میں ’گاف‘ اور ’ذال‘ کے اتصال سے کوئی لفظ شروع نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو لغات ’گ۔ذ‘ کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں۔
بات ناقابل یقین تھی، سو فوراً فیروز اللغات سے رجوع کیا اور یہ دیکھ دَنگ رہ گئے کہ واقعی اس میں حرف ’گاف اور ذال‘ سے شروع ہونے والا کوئی لفظ موجود نہیں تھا۔ ہڑبڑا کر ’فرہنگ آصفیہ‘ کھولی تو وہ بھی منہ چِڑا رہی تھی۔ وہاں بھی ’حرف گ‘ کی فہرست میں لفظ ’گدیلا‘ کے بعد ’گاف۔ ذال‘ سے کوئی لفظ موجود نہیں تھا بلکہ اگلا لفظ ’گاف۔ ڈال‘ سے ’گَڈ‘ درج تھا۔
دوسرے لفظوں میں کہیں تو اردو زبان کی معتبر فرہنگ کے مؤلف سید احمد دہلوی بزبانِ قلم ’استاد‘ کے موقف کی تائید کر رہے تھے۔
اس حقیقت نما فسانے کی جڑ یہ خیال ہے کہ ’ذال‘ فارسی کا حرف نہیں ہے، یہ عربی زبان سے مخصوص ہے۔ لہٰذا جب یہ فارسی میں وجود ہی نہیں رکھتا تو فارسی الاصل الفاظ میں ’ذال‘ کی موجودگی بھی مشکوک قرار پاتی ہے۔

فیروز اللغات سے رجوع کیا تو اس میں حرف ’گاف اور ذال‘ سے شروع ہونے والا کوئی لفظ موجود نہیں تھا۔ (فوٹو: فیروزاللغات)

ایک دانشور نے کہا تھا بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ہوتی ہیں، سو غالب جیسے بڑے شاعر نے دیدہ دانستہ یہ غلط فہمی پیدا کی کہ ’ذال‘ فارسی حرف نہیں ہے۔ فرہنگ نویسوں نے غالب کے کلام کی طرح اُن کے اس فرمان کو بھی الہام جانا اور ’گذشت، گذشتہ اور گذرگاہ‘ کے سے الفاظ کو بالترتیب ’گزشت، گزشتہ اور گزرگاہ‘ لکھ دیا۔
بات یہ ہے کہ ’زے‘ کی طرح ’ذال‘ کی آواز بھی فارسی میں موجود ہے۔ ’برہانِ قاطع‘ جیسی قدیم فارسی فرہنگ سے لے کر ’لغت نامہ دہخدا‘ کی سی مبسوط اور معتبر فرہنگ تک میں ایسے دسیوں الفاظ درج ہیں جن میں ’ذال‘ موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ’زے‘ و ’ذال‘ کے التباس سے کیسے بچا جائے، تو آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیں کہ ’گزر، گزارا، گزارش، تہجد گزار اور مالی گزاری‘ کے سے الفاظ ’گزاردن‘ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ’زے‘ سے لکھے جائیں گے، جب کہ راہ گذر، سرگذشت اور گذشتگان‘ وغیرہ کے سے الفاظ میں ’گذاردن‘ کے تعلق سے ’ذال‘ برتا جائے گا۔ اس پُرپیچ بحث کے بعد اختلاف تلفظ کی رعایت سے غالب کا تصرف شدہ شعر ملاحظہ کریں:
یہ ’مسائل تلفظ‘ یہ ترا بیان غالب
تھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

شیئر: