پاکستان کے شہر لاہور میں 28 اگست سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب چوہنگ کے علاقے میں ایک پولیس مقابلے کی خبر صحافیوں کے موبائل فونز پر ’پولیس ذرائع‘ سے بھیجی گئی۔
اس خبر میں بتایا گیا کہ پولیس نے ناکے پر دو ڈاکوؤں کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے اور الٹا پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ میں دونوں ڈاکو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
مزید پڑھیں
-
پولیس مقابلہ: غفار ذکری ساتھی اور 3 سالہ بیٹے سمیت ہلاکNode ID: 323551
-
اسلام آباد میں پولیس مقابلہ، ایک اہلکار، دو ’دہشت گرد‘ مارے گئےNode ID: 636336
پولیس مقابلے کی خبر تقریبا تمام مقامی ٹیلیویژنز پر نشر ہوئی۔ لیکن اس خبر کے نشر ہونے کے کچھ وقت بعد ہی صورت بدلنا شروع ہو گئی۔ کیونکہ بات اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔ دونوں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت رحمان اور نقاش کے نام سے ہوئی۔
ان ہلاک ہونے والے دونوں افراد کے رشتہ داروں نے گرین ٹاون کے علاقے میں لاشیں رکھ کر احتجاج شروع کر دیا۔ اور یہ الزام عائد کیا کہ پولیس نے ’جعلی مقابلے‘ میں دو نوجوانوں کو ہلاک کیا ہے۔
اس احتجاج میں صرف گھر والے اور رشتہ دار ہی شامل نہیں تھے بلکہ پورا علاقہ شامل ہو گیا۔ جس کے بعد خفیہ طریقے سے صحافیوں کی دی گئی خبر تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔
پولیس مقابلہ کیسے ہوا؟
پولیس کی کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے مطابق ’سی آئی اے نے ڈاکوؤں سے متعلق ایک اطلاع پر ملتان روڈ کے علاقے میں چوہنگ پولیس سٹیشن کے قریب ایک ناکہ لگا رکھا تھا جس سے گزرنے والے افراد کی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ اسی دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد آئے جس کو روکنے کی کوشش کی گئی وہ نہیں رکے الٹا انہوں نے بندوق سے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس برجستہ فائرنگ پر ان پر پولیس نے بھی فائرنگ کی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘
سی آئی اے پولیس کے اس بیان میں دو دلچسپ حقائق ہیں۔ ایک یہ کہ جب مبینہ ڈاکووں نے فائرنگ شروع کی تو اس فائرنگ سے کسی پولیس اہلکار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جبکہ دوسری دلچسپ بات یہ تھی کہ جب دونوں ڈاکو ہلاک ہو گئے تو ان کے قبضے سے نکلنے والی رائفل اور گولیاں سرکاری تھیں۔ یعنی وہ اسلحہ مبینہ طور پر پہلے ہی پولیس سے چھینا ہوا تھا۔
اب آتے ہیں ’پولیس حقائق‘ کے دوسری طرف، ہلاک ہونے والے ایک نوجوان رحمان کے والد نے محمد عاشق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا بیٹا اچھرہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ وہ چھوٹی موٹی چوری چکاری میں پولیس نے پکڑا ہوا تھا۔ سی آئی اے پولیس نے اس کو حوالات سے نکالا اور اپنے ساتھ لے گئے اور مجھ سے دس لاکھ روپے رشوت مانگی کہ اسے چھوڑ دیں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2022/punjab-police2.jpg)
محمد عاشق نے مزید بتایا کہ ’میں نے ایک وکیل کے ذریعے پولیس سے بات چیت کی اور دولاکھ روپے رشوت دی۔ جس کے بدلے میں مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے پر کوئی چھوٹا مقدمہ ڈال کر اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔ لیکن یہ ہفتے کی رات بھٹہ نمبر ایک گرین ٹاون میں میرے گھر آ گئے۔ ان کے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا اور ایک اور نوجوان تھا۔ مجھ سے باقی پیسوں کو مطالبہ کیا تو میں نے کہا کہ پیسے تو نہیں جس پر انہوں نے کہا کہ پھر تو وہ اسے مار دیں گے۔‘
اہل علاقہ کے مختلف بیانات کے مطاق پولیس نے دونوں نوجوانوں کو پولیس میاں چوک گرین ٹاؤن کے نزدیک چاند ماری گراؤنڈ میں لے گئی اور انہیں بھاگنے کا کہہ کر انہیں گولیاں مار دیں۔ اور قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو چوہنگ تھانے میں لے گئے۔
پولیس نے میڈیا کو ’ذرائع‘ سے پولیس مقابلے کی خبر جاری کرنے کے بعد دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال بھیج دیا اور قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد انہیں ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ جس پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اس احتجاج میں ایک اور بات یہ ہوئی کہ رحمان اور نقاش کے والدین کے علاوہ تین اور نوجوانوں فرمان، شاہد اور دانش کے والدین بھی اس احتجاج میں شریک تھے۔
دانش کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ کہ ان کے بیٹے کو بھی مار دیا جائے گا کیونکہ وہ بھی پولیس کسٹڈی میں ہے۔
اردو نیوز کی اپنی معلومات کے مطابق رحمان اور نقاش پر اس سے پہلے بھی ایک درجن سے زائد مقدمات درج تھے جن میں انہوں نے کئی مقدمات میں ٹرائل کا سامنا کیا اور کئی میں ضمانتوں پر تھے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق رحمان اور نقاش پر درج مقدمات میں زیادہ تر چوری اور موٹر سائیکل ڈکیتی سے متعلق ہیں۔ چار مقدمات میں یہ ملزمان نامزد تھے جبکہ باقی مقدمات میں ایف آئی آر میں یہ ملزمان نامزد نہیں تھے بلکہ انہیں دوران تفتیش ملزم ٹھہرایا گیا۔
محمد عاشق البتہ ان الزمات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرا بیٹا چور یا ڈکیت نہیں ہے۔ اس پر ایک موبائل چوری کا مقدمہ دو سال پہلے بنا تھا۔ وہ بھی اس نے موبائل چوری نہیں کیا تھا بلکہ خریدا تھا اور وہ چوری کا نکل آیا۔ جب سے وہ پولیس ریکارڈ میں آیا اس کے بعد سے اس کی جان نہیں چھوٹی۔‘
انہوں نے بتایا کہ رحمان کی عمر 25 سال تھی اور اس نے میڑک تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ نقاش اور وہ دونوں گہرے دوست تھے ’وہ ہر وقت اکھٹے نظر آتے تھے۔ ان کی عمریں بھی ایک جتنی تھیں۔ اگر پولیس کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ وہ جرائم میں ملوث تھے تو ان پر مقدمہ چلاتے انہیں گرفتار کرتے۔ انہوں نے مارا کیوں؟ اور مارا بھی ہمیں بتا کے اس بات کا پورا محلہ گواہ ہے۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی آئی اے کے آفیسر رانا اکرم نے ان کے بیٹے کو دو مہینے سے گرفتار کیا ہوا تھا۔ ’رانا اکرم نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہ اسے چھوڑ دے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘
دوسری طرف سی آئی اے پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ رانا اکرم نامی انسپکٹر نے جان بوجھ کر پولیس مقابلہ کیا۔ پولیس کے مطابق اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہو رہی ہے۔ اس میں کمیشن کے سامنے سارے حقائق رکھے جائیں گے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36476/2022/60fcf5aa599ef.jpg)