Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں ایک اور پولیس مقابلہ، کیا مرنے والے واقعی ڈکیت تھے؟ 

پولیس نے پہلے میڈیا کے نمائندوں کو ذرائع سے مقابلے میں ڈاکوؤں کے مارے جانے کی خبر دی۔ فائل فوٹو
پاکستان کے شہر لاہور میں 28 اگست سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب چوہنگ کے علاقے میں ایک پولیس مقابلے کی خبر صحافیوں کے موبائل فونز پر ’پولیس ذرائع‘ سے بھیجی گئی۔  
اس خبر میں بتایا گیا کہ پولیس نے ناکے پر دو ڈاکوؤں کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے اور الٹا پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ جوابی فائرنگ میں دونوں ڈاکو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔  
پولیس مقابلے کی خبر تقریبا تمام مقامی ٹیلیویژنز پر نشر ہوئی۔ لیکن اس خبر کے نشر ہونے کے کچھ وقت بعد ہی صورت بدلنا شروع ہو گئی۔ کیونکہ بات اتنی بھی سادہ نہیں تھی۔ دونوں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت رحمان اور نقاش کے نام سے ہوئی۔   
ان ہلاک ہونے والے دونوں افراد کے رشتہ داروں نے گرین ٹاون کے علاقے میں لاشیں رکھ کر احتجاج شروع کر دیا۔ اور یہ الزام عائد کیا کہ پولیس نے ’جعلی مقابلے‘ میں دو نوجوانوں کو ہلاک کیا ہے۔  
اس احتجاج میں صرف گھر والے اور رشتہ دار ہی شامل نہیں تھے بلکہ پورا علاقہ شامل ہو گیا۔ جس کے بعد خفیہ طریقے سے صحافیوں کی دی گئی خبر تبدیل ہونا شروع ہو گئی۔   

پولیس مقابلہ کیسے ہوا؟   

پولیس کی کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی آئی اے) کے مطابق ’سی آئی اے نے ڈاکوؤں سے متعلق ایک اطلاع پر ملتان روڈ کے علاقے میں چوہنگ پولیس سٹیشن کے قریب ایک ناکہ لگا رکھا تھا جس سے گزرنے والے افراد کی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ اسی دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو افراد آئے جس کو روکنے کی کوشش کی گئی وہ نہیں رکے الٹا انہوں نے بندوق سے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس برجستہ فائرنگ پر ان پر پولیس نے بھی فائرنگ کی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘   
سی آئی اے پولیس کے اس بیان میں دو دلچسپ حقائق ہیں۔ ایک یہ کہ جب مبینہ ڈاکووں نے فائرنگ شروع کی تو اس فائرنگ سے کسی پولیس اہلکار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ جبکہ دوسری دلچسپ بات یہ تھی کہ جب دونوں ڈاکو ہلاک ہو گئے تو ان کے قبضے سے نکلنے والی رائفل اور گولیاں سرکاری تھیں۔ یعنی وہ اسلحہ مبینہ طور پر پہلے ہی پولیس سے چھینا ہوا تھا۔   
اب آتے ہیں ’پولیس حقائق‘ کے دوسری طرف، ہلاک ہونے والے ایک نوجوان رحمان کے والد نے محمد عاشق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرا بیٹا اچھرہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ وہ چھوٹی موٹی چوری چکاری میں پولیس نے پکڑا ہوا تھا۔ سی آئی اے پولیس نے اس کو حوالات سے نکالا اور اپنے ساتھ لے گئے اور مجھ سے دس لاکھ روپے رشوت مانگی کہ اسے چھوڑ دیں گے۔‘   

پنجاب پولیس پر جعلی مقابلوں کے ماضی میں بھی الزامات لگتے رہے ہیں۔ فائل فوٹو: پنجاب پولیس

محمد عاشق نے مزید بتایا کہ ’میں نے ایک وکیل کے ذریعے پولیس سے بات چیت کی اور دولاکھ روپے رشوت دی۔ جس کے بدلے میں مجھے بتایا گیا کہ میرے بیٹے پر کوئی چھوٹا مقدمہ ڈال کر اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔ لیکن یہ ہفتے کی رات بھٹہ نمبر ایک گرین ٹاون میں میرے گھر آ گئے۔ ان کے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا اور ایک اور نوجوان تھا۔ مجھ سے باقی پیسوں کو مطالبہ کیا تو میں نے کہا کہ پیسے تو نہیں جس پر انہوں نے کہا کہ پھر تو وہ اسے مار دیں گے۔‘   
اہل علاقہ کے مختلف بیانات کے مطاق پولیس نے دونوں نوجوانوں کو پولیس میاں چوک گرین ٹاؤن کے نزدیک چاند ماری گراؤنڈ میں لے گئی  اور انہیں بھاگنے کا کہہ کر انہیں گولیاں مار دیں۔ اور قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو چوہنگ تھانے میں لے گئے۔  
پولیس نے میڈیا کو ’ذرائع‘ سے پولیس مقابلے کی خبر جاری کرنے کے بعد دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے جناح ہسپتال بھیج دیا اور قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد انہیں ورثا کے حوالے کر دیا گیا۔ جس پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔   
اس احتجاج میں ایک اور بات یہ ہوئی کہ رحمان اور نقاش کے والدین کے علاوہ تین اور نوجوانوں فرمان، شاہد اور دانش کے والدین بھی اس احتجاج میں شریک تھے۔
دانش کے والد کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ کہ ان کے بیٹے کو بھی مار دیا جائے گا کیونکہ وہ بھی پولیس کسٹڈی میں ہے۔   
اردو نیوز کی اپنی معلومات کے مطابق رحمان اور نقاش پر اس سے پہلے بھی ایک درجن سے زائد مقدمات درج تھے جن میں انہوں نے کئی مقدمات میں ٹرائل کا سامنا کیا اور کئی میں ضمانتوں پر تھے۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق رحمان اور نقاش پر درج مقدمات  میں زیادہ تر چوری  اور موٹر سائیکل ڈکیتی سے متعلق ہیں۔ چار مقدمات میں یہ ملزمان نامزد تھے جبکہ باقی مقدمات میں ایف آئی آر میں یہ ملزمان نامزد نہیں تھے بلکہ انہیں دوران تفتیش ملزم ٹھہرایا گیا۔ 
محمد عاشق البتہ ان الزمات کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرا بیٹا چور یا ڈکیت نہیں ہے۔ اس پر ایک موبائل چوری کا مقدمہ دو سال پہلے بنا تھا۔ وہ بھی اس نے موبائل چوری نہیں  کیا تھا بلکہ خریدا تھا اور وہ چوری کا نکل آیا۔  جب سے وہ پولیس ریکارڈ میں آیا اس کے بعد سے اس کی جان نہیں چھوٹی۔‘
انہوں نے بتایا کہ رحمان کی عمر 25 سال تھی اور اس نے میڑک تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ نقاش اور وہ دونوں گہرے دوست تھے ’وہ ہر وقت اکھٹے نظر آتے تھے۔ ان کی عمریں بھی ایک جتنی تھیں۔ اگر پولیس کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ وہ جرائم میں ملوث تھے تو ان پر مقدمہ چلاتے انہیں گرفتار کرتے۔ انہوں نے مارا کیوں؟ اور مارا بھی ہمیں بتا کے اس بات کا پورا محلہ گواہ ہے۔‘   
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سی آئی اے کے آفیسر رانا اکرم نے ان کے بیٹے کو دو مہینے سے گرفتار کیا ہوا تھا۔ ’رانا اکرم نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ وہ اسے چھوڑ دے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘   
دوسری طرف سی آئی اے پولیس ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ رانا اکرم نامی انسپکٹر نے جان بوجھ کر پولیس مقابلہ کیا۔ پولیس کے مطابق اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہو رہی ہے۔ اس میں کمیشن کے سامنے سارے حقائق رکھے جائیں گے۔    

قانون دان آفتاب باجوہ کے مطابق جعلی مقابلے کرنے والے اہلکاروں کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی گئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پولیس جواب دینے سے قاصر   

ابتدائی طور پر ذرائع سے صحافیوں کو خبر جاری کرنے کے بعد اس حوالے سے پولیس نے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
اس حوالے سے جب اردو نیوز نے لاہور پولیس حتی کہ آئی جی پنجاب آفس سے رابطہ کیا تو یہ کہا گیا کہ اس حوالے سے صرف سی آئی اے پولیس ہی بیان جاری کر سکتی ہے۔ ایس پی سی آئی اے محمد عاصم سے جب اس حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بھی دستیاب نہیں تھے۔   
لاہور پولیس کے ایک ذمہ اعلٰی افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس پولیس مقابلے کی محکمانہ تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور سی آئی اے کا وہ تفتیشی افسر محمد اکرم جو ملزمان کو تھانے سے گھر لے کر گیا تھا اس کو معطل کر دیا گیا ہے۔ 
دوسری طرف سیشن جج لاہور نے بھی پولیس مقابلے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ قانون کے مطابق ہر پولیس مقابلے کی ایک جوڈیشل انکوائری بھی ہوتی ہے جو اس علاقے کا سیشن جج کرتا ہے۔   
اہم ترین بات یہ ہے کہ چند روز قبل لاہور ہی کے مناواں کے علاقے میں ہی سی آئی اے نے ایک پولیس مقابلے کا دعویٰ کیا تھا جس میں کاشف عرف کے کے نامی ایک ڈاکو سمیت تین افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
اس کیس میں بھی ورثا نے جب لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور حقائق بتائے کہ ملزمان کو دوران حراست قتل کیا گیا تو عدالت نے ایس پی سی آئی اے محمد عاصم سمیت دیگر پولیس افسران پر قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا تاہم ابھی تک وہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ سی آئی اے پولیس نے اس حکم کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر رکھی ہے۔   
فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل اور سابق سیکریٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آفتاب باجوہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس کے ہاتھوں ہر ماورائے عدالت قتل کی جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے۔ جس میں نہ صرف مقتول کے ورثا بلکہ ان تمام پولیس افسران اور اہلکاروں سے علیحدہ علیحدہ تحقیقات کی جاتی ہیں۔ اور ان کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے۔ مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کسی پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری کے بعد پولیس کے خلاف کوئی ایکشن ہوا ہے۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آ بھی جائے تو اس وقت تک وہ مقتول کے ورثا سے پیسے وغیرہ دے کر معاملات طے کر لیتے ہیں۔‘   
آفتاب باجوہ نے مزید بتایا کہ ’جعلی پولیس مقابلوں کا سلسلہ نیا نہیں۔ عام طور پر کرپٹ پولیس افسران ایسے افراد کا تعین کرتے ہیں جن کے خلاف پہلے ہی کئی مقدمات مختلف تھانوں میں درج ہوتے ہیں۔ جس سے انکوائری کے وقت وہ فائدہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مقتول تو عادی مجرم تھا۔ اور یہی پولیس کا سب سے بڑا ڈیفنس ہوتا ہے۔

شیئر: