’تم نہیں کر سکتے‘ کے جواب میں بلوچستان کے ثنا اللہ نے سب کو حیران کر دیا
’تم نہیں کر سکتے‘ کے جواب میں بلوچستان کے ثنا اللہ نے سب کو حیران کر دیا
منگل 4 اکتوبر 2022 6:07
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ثنا اللہ نے چند روز قبل ہی فرانس کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کی ہے (فوٹو: ثنا اللہ)
’بچے تو بچے بڑے بھی مجھ پر آوازیں کستے تھے اور کہتے تھے کہ تم اپنے بیگ کا وزن نہیں اٹھا سکتے تو پڑھائی کیا کرو گے۔ کبھی دھکا دے کر نالے میں گرا دیتے تو کبھی سر پر مٹی ڈال دیتے۔‘
یہ کہنا ہے ثنااللہ فیض کا جنہیں گلی محلوں میں سکول کالج اور یونیورسٹی جاتے ہوئے اپنے پستہ قد کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن بلوچستان کے ضلع مستونگ کے پسماندہ علاقے کانک کے لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے تمام مشکلات کے باوجود اپنا لوہا منوایا۔
35 سالہ ثنا اللہ نے دنیا کی 50 بڑی یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی فرانس کی سربون یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
ثنا اللہ فیض نے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر کوئٹہ میں اپنی پڑھائی کے اخراجات پورے کیے اور 2018 میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سکالر شپ حاصل کرکے فرانسیسی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور پچھلے ہفتے اپنی تحقیقی مقالے کا کامیابی سے دفاع کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرلی۔
ثنااللہ فیض نے ٹیلی فون پر اردو نیوز کو بتایا کہ انہوں نے خودکار گاڑیوں کے مواصلاتی نظام پر تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ سطح پر کام آ سکتی ہے اور اس سے خود کار گاڑیوں کی حفاظتی خصوصیات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ثنا اللہ فیض نے بتایا کہ ’میں ایک لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا ہوں، والد پرچون کی چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ والد نے ہمیشہ اعلٰی تعلیم کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔ یہی وجہ تھی کہ میں گریجویشن کرنے والا خاندان کا پہلا فرد تھا اس کے بعد چھوٹے بھائی نے بھی ایم بی اے کیا۔‘
ثنا اللہ کی خواہش تھی کہ نام کے ساتھ انجنیئیر یا ڈاکٹر لگے۔
ثناء اللہ فیض کا کہنا تھا کہ ’میں شروع سے ہی پڑھائی میں اچھا تھا، پانچویں اور آٹھویں جماعت کے بورڈ امتحان میں پورے ضلع میں ٹاپ کیا۔ میٹرک کا امتحان بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’والد نے مالی پریشانیوں کے باوجود کوئٹہ کے ایک اچھے نجی تعلیمی ادارے میں داخلہ دلوایا۔ کوئٹہ میں گھر نہ ہونے کی وجہ سے کئی بارماموں کے گھر رہنا پڑا انہوں نے بھی ہمیشہ مدد کی۔‘
’اپنی فیس اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے لیے پڑوسیوں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں ٹی وی پر کسی کے نام کے ساتھ انجینیئر، ڈاکٹر یا پروفیسر کا نام دیکھتا تھا تو کزن سے پوچھتا تھا کہ یہ انجینیئراور ڈاکٹر کیسے بنتے ہیں۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے نام کے ساتھ انجینئراور ڈاکٹر لگانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے دل لگا کر پڑھائی پر محنت کی۔ کمپیوٹر میں زیادہ دلچسپی تھی اس لیے کمپیوٹر انجینئرنگ کی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد کوئٹہ کی بیوٹمز یونیورسٹی سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں بی ایس اور ایم ایس کیا۔ 2018 میں ہائرایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بلوچستان کے طلبہ کے لیے پی ایچ ڈی سکالر شپس کا اعلان ہوا تو میں امتحان پاس کرکے فرانس آ گیا۔‘
ثنا اللہ کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں ٹیوشن پڑھا کر تعلیم کے اخراجات پورے کیے
ثنا اللہ فیض کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اساتذہ کا رویہ اچھا اور بہتر تھا وہ رہنمائی اور مدد کرتے تھے لیکن ہمارا معاشرہ ابھی بھی اس مقام پر نہیں پہنچا جہاں جسمانی طور پر کمزوری کے شکار افراد کو عزت و احترام اور حقوق ملیں۔
ان کے مطابق ’بدقسمتی سے بچے تو بچے بڑے بھی جسمانی طور پر کسی کمزوری کے شکار فرد کا مذاق اڑاتے ہیں۔
’قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی آتے جاتے ہوئے لوگ تنگ کرتے تھے، دھکے دیتے تھے، ایک بار تو لڑکوں نے نالے میں گرا دیا اور ایک بار سر پر مٹی پھینک دی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سکول میں سینیئر لڑکے اپنی کتابوں سے بھرا بستہ سر پر رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم پڑھائی کرکے کیا کرو گے۔ اپنے والد کی دکان پر بیٹھا کرو۔‘
’ایسے واقعات سے دکھ ہوتا تھا اور حوصلہ شکنی بھی لیکن اس کے باوجود آگے بڑھنے کی تڑپ موجود رہی۔‘'
ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ ’آج جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں جسمانی سے زیادہ دماغ کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
ثنا اللہ نے بتایا کہ ’آج جدید اور ٹیکنالوجی کے دور میں جسمانی سے زیادہ دماغ کی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
ثنا اللہ فیض کا کہنا تھا کہ ’جب بھی مجھے کوئی کہتا ہے کہ یہ کام آپ نہیں کرسکتے تو میں اسے چیلنج سمجھ لیتا ہوں اور کرکے دکھا تا ہوں۔‘
انہوں نے اس کی مثال کے لیے بتایا کہ فرانس میں جسمانی طور پر نارمل افراد کے لیے ڈرائیونگ لائسنس لینا بھی مشکل ہے۔ یہاں میرے کچھ دوست پانچ چھ سال کی کوششوں کے باوجود ناکام ہیں۔
دوستے کہتے تھے ’آپ کبھی ڈرائیونگ نہیں لے سکیں گے کیونکہ آپ کو تو فرنچ بھی نہیں آتی۔‘
ثنا اللہ جلد واپس آ کر اپنے علاقے میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔
ثنا اللہ نے ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ فرنچ زبان بھی سیکھی جس کے بعد لائسنس بھی حاصل کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان کی نسبت فرانس میں لوگ زیادہ احترام سے پیش آتے ہیں، لوگوں کے سوچنے کا انداز مختلف ہے۔ بس ڈرائیور تک آپ کی مشکل کا احساس کرتا ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی نے مجھے ایگزیکٹیو سٹیٹیس دے کر ہر جگہ تک خصوصی رسائی دی ہے جہاں باقی طلبہ کو اجازت نہیں۔‘
ثنا اللہ نےعزم ظاہر کیا کہ وہ جلد واپس آ کر اپنے علاقے میں لوگوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ شعور اور تعلیم ہی تمام مسائل کا حل ہے۔