Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور کا لبرٹی چوک سیاسی جلسوں کا مرکز کیوں بنتا جا رہا ہے؟

تحریک انصاف لبرٹی چوک میں ایک درجن کے قریب مظاہرے کر چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے موجودہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے۔ اس لانگ مارچ کے لیے انہوں نے لاہور کے ایک پوش علاقے میں موجود لبرٹی چوک کا انتخاب کیا ہے۔
اس چوک میں سیاسی سرگرمیوں کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ یہ چوک کب بنا، اس کا نام کیسے پڑا اس کی تاریخ بھی دلچسپ ہے۔ 
لبرٹی چوک جو گلبرگ کے علاقے میں مین بلیووارڈ پر واقع ہے اس کے ایک طرف قذافی سٹیڈیم اور ایک طرف لبرٹی مارکیٹ ہے۔
گلبرگ کے مین بلیوارڈ کی کشادہ سڑک ایک طرف سے کلمہ چوک اور دوسری طرف سے جم خانہ کو چھوتی ہے اور پھر کنٹونمنٹ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ایک چوراہے سے زیادہ ایک راؤنڈ اباؤٹ ہے جس کے چاروں طرف گھوم کر چار راستے نکلتے ہیں۔ 
راؤنڈ اباؤٹ کے درمیان ایک جدید اور قدیم طرز تعمیر کا ایک چوکھٹا نما مونومنٹ (یادگار) ہے۔ اس مونومنٹ کے تخلیق کار ڈاکٹر سجاد کوثر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ یادگار 90 کی دہائی کے آخر میں بنائی گئی تھی جب شہباز شریف وزیراعلٰی پنجاب تھے اور مجھے صرف تین دن کا وقت دیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جیسے کہ شہباز شریف کو ہر کام فوری اور وقت سے پہلے کرنا اور کروانا پسند ہے۔ اتنے تھوڑے سے وقت میں اس یادگار کو بنانے کے لیے میں نے آئیڈیا مغلوں کے باغات میں لگے طاق نما چینی خانوں سے لیا۔‘

تحریک انصاف کا لانگ مارچ لاہور لبرٹی چوک سے اسلام آباد سے روانہ ہوگا۔ (فوٹو: عمران خان ٹوئٹر)

ڈاکٹر سجاد کوثر نے مزید بتایا کہ شالا مار باغ میں لگا چینی خانہ ایک دیوار پر ہے لیکن لبرٹی چوک میں لگی یادگار میں چار دیواریں مربعہ نما شکل میں ہیں۔ ڈاکٹر سجاد کوثر کے مطابق ’اصل آئیڈیا یہ تھا کہ پانی کی آبشاروں کے پیچھے دیواروں میں دیے جل رہے ہوں لیکن اب اس کا ستیاناس کر دیا گیا ہے۔‘  

لبرٹی چوک کا نام لبرٹی کیوں پڑا؟

اس حوالے سے کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں ہیں کیونکہ تاریخ دانوں اور ادیبوں کے مطابق کوئی ایسا خاص واقعہ نہیں ہے جس سے لبرٹی مارکیٹ کا نام منسوب کیا گیا ہو۔
لاہور کی ثقافتی تاریخ  کے ماہر سمجھے جانے والے ڈاکٹر اعجاز انور کہتے ہیں کہ ’60 کی دہائی میں گلبرگ کے علاقے میں انگریزی حرف ’یو‘ سے مماثلت رکھنے والی مارکیٹ بنائی گئی اور یہ چوک اس سے تھوڑا ہی باہر ہے تو ایل ڈی اے نے اس کا نام بھی لبرٹی راؤنڈ اباؤٹ رکھ دیا۔‘
ادیب ڈاکٹر غافر شہزاد نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’80 کی دہائی میں یہ پوش علاقہ تھا جہاں بہت سے فنکار اور فلمی ستارے رہائش پذیر تھے۔ ’میڈم نور جہاں کا گھر اس چوک کی ایک نکڑ پر تھا جہاں اب پلازہ بن چکا ہے۔ غلام محی الدین یا محمد علی سب کی رہائش گاہیں اس علاقے میں تھیں تو ہم بھی ان کو دیکھنے اس علاقے میں خاص طور پر اس چوک میں چلے جاتے تھے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت چوک کے اندر یادگار نہیں تھی، یہ تو بہت بعد میں بنی اور اس کو ڈاکٹر سجاد کوثر نے ڈیزائن کیا۔ اس سے پہلے اس جگہ پر نیر علی دادا کا ڈیزائن کردہ مونومنٹ نصب ہونا تھا جس پر کلمہ لکھا ہوا تھا۔ یہ مونومنٹ یہاں لگانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس جگہ پر فٹ نہیں آرہا تھا تو اسے پہلے والے چوک جس کو بعد میں کلمہ چوک سے موسوم کیا گیا وہاں لگا دیا گیا اور اس جگہ پر یہ نئی یادگار بنائی گئی۔‘  

لبرٹی چوک گلبرگ کے علاقے میں مین بلیووارڈ پر واقع ہے۔ (فوٹو بشکریہ راحت ڈار)

لبرٹی چوک کی سیاسی تاریخ:

لبرٹی چوک میں پہلی سیاسی سرگرمی جو میں نے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھی تھی وہ 2009 کا سال تھا جب سول سوسائٹی کے کچھ افراد ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے کھڑے نظر آتے تھے۔ یہ عدلیہ بحالی جدوجہد کا دوسرا دور تھا۔
ان پلے کارڈز پر لکھا ہوتا تھا کہ ’اگر آپ آزاد عدلیہ کے ساتھ ہیں تو ہارن بجائیں‘ اور لوگ گزرتے ہوئے اپنی گاڑیوں کے ہارن بجاتے تھے۔  
اسی دور میں اس چوک پر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ پوری دنیا کی خبروں میں لبرٹی چوک کا نام آیا۔ یہ واقعہ سری لنکن ٹیم پر حملے کا واقعہ تھا۔ اس کے بعد 2015 مارچ کے مہینے میں سلمان تاثیر کی برسی کی تقریب یہاں منعقد ہوئی جس پر حملہ کیا گیا تو یہ چوک ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بنا۔
اس سے ہٹ کر 14 اگست اور دیگر ثقافتی دنوں میں یہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں یا پھر گرمیوں کی شاموں میں یہاں لگے فواروں کی ٹھنڈک میں بیٹھنے کے لیے فیملیز اور بچے نظر آتے ہیں۔  
اسی سال 2022 میں جب اپریل کے مہینے میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا اور انہوں نے ملک گیر مظاہروں کی کال دی تو پہلی بار کسی سیاسی جماعت نے باقاعدہ طور پر اس جگہ کو اپنی سرگرمی کے لیے استعمال کیا۔  
تحریک انصاف اس چوک میں ایک درجن کے قریب مظاہرے کر چکی ہے اور اسی کی دیکھا دیکھی مسلم لیگ ن نے بھی دو بار یہاں مظاہروں کی کال دی ہے۔  
اس سے پہلے لاہور شہر میں سیاسی مظاہروں کا سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا اور اس وقت لاہور کا موچی گیٹ سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا تھا۔ اس کے بعد جب ن لیگ کا دور آیا تو بھاٹی چوک ن لیگ کا مرکز رہا۔
جب نواز شریف اور مریم نواز 2018 میں وطن واپس آئے اور انہیں لاہور ایئرپورٹ پر گرفتار کیا جانا تھا تو شہباز شریف نے بھاٹی چوک سے ہی مظاہرے کی قیادت کی۔  
تحریک انصاف کے سیاسی مظاہروں کا مرکز ڈی ایچ اے کا لالک جان چوک ہوا کرتا تھا تاہم اب وہ لاہور کی سیاست کو لبرٹی چوک میں لے آئے ہیں اور اب یہیں سے جمعہ کو لانگ مارچ اسلام آباد روانہ ہوگا۔

شیئر: