Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

والدین کی ڈانٹ ، موبائل فون پر نغمے کی طرح سنیں

پیشانی پر شکن لائے بغیر کسی اُداس اور مایوس انسان کی گھنٹوں طویل، بے مقصد باتیں سننا بھی آسانی پیدا کرنا ہے

- - - - - - - -

ثمینہ عاصم۔جدہ
- - - - - - - - 
آج ایک صاحب علم سے ملاقات ہوئی ۔ہم نے سلام کیا تو انہوں نے دعائیں دیں اور کہا کہ اللہ کریم آپ کو آسانیاں بانٹنے والا بنائے۔ ہم نے بڑی حیرت سے ان بزرگ کی طرف دیکھا اور کہا کہ اللہ کریم نے مال عطا فرمایا ہے۔ ہم اس میں سے زکوٰۃ دیتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کیلئے صدقہ بھی دیتے ہیں۔ ملازمین کی ضرورتوں کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ ایک عورت کے بچے کی تعلیم کا خرچہ بھی اٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ ہم کافی آسانیاں بھی بانٹتے ہیں۔ یہ سن کر وہ عالم تھوڑا سا مسکرائے اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولے کہ میرے بچے سانس، پیسہ، کھانا یہ سب رزق کی مختلف قسمیں ہیں اور رزاق صرف اور صرف اللہ کریم کی ذات ہے۔ کوئی بھی انسان یا تم یہ سارے کام جو تم بتا رہے ہو، یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو اللہ تعالیٰ کی ذات ایک ساعت میں سب کچھ عطا کرسکتی ہے۔ تم اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کررہے ہو پھر انہوں نے نرمی سے سمجھایاکہ:
**اپنی پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر کسی اُداس اور مایوس انسان کی گھنٹوں طویل، بے مقصد باتیں سننا ،یہ بھی ایک آسانی ہے۔ اس سے اس انسان کے دل کا غبار چھٹ جائے گا۔
** اپنی ضمانت پر کسی بیوہ یا کسی کی بیٹی کے لئے رشتہ تلاش کرنا آسانی ہے۔
**صبح دفتر جاتے ہوئے محلے کے کسی یتیم بچے کو اسکول لے جانے کی ذمہ داری لے لینا بھی آسانی ہے۔ **اگر تم کسی گھر کے بہنوئی یا داماد ہو تو خود کو سسرال میں برتر یا افضل نہ سمجھنا بھی آسانی ہے۔
**کسی کے غصے کو برداشت کرنا اور اس کی کڑوی کسیلی باتیں نرمی سے برداشت کرنا بھی آسانی ہے۔ **چائے کے کھوکھے والے یا ویٹر کو اوئے کہنے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بلانا بھی آسانی ہے۔
**کسی ٹھیلے والے سے بغیر بحث کئے خریداری کرنایا کسی بوٹ پالش والے سے کام لینا اور اس کی منہ مانگی اُجرت دینا بھی آسانی ہے۔
**اپنے دفتر، فیکٹری یا اسکول وغیرہ کے چوکیدار یاکسی بھی چھوٹے ملازم کو سلام کرنے میں پہل کرنا اور ان کے بچوں کا حال پوچھنا اور ان کے لئے گفٹ دینا بھی آسانی ہے۔
**اسپتال میں انجان مریضوں اور وہاں کے ورکرز سے نرمی سے بات کرنا خیریت پوچھنا بھی آسانی ہے **ٹریفک کے اشارے پر آگے جانے وا لی گاڑی کو بار بار ہارن نہ دینا اور اگر کسی کی گاڑی بند ہو گئی تو اس کی مدد کرنا، سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے۔ یہ آسانیاں تم اپنے گھر والوں سے شروع کرو۔ وہ بھی اس طرح کہ : **گھر کے دروازے کی بار بار گھنٹی بجانے کے بجائے ایک بار گھنٹی بجاکر انتظار کرو۔
** اپنی والدہ یا والد کی ڈانٹ ایسے سنو جیسے موبائل فون پر نغمے سنتے ہو۔
** اپنی والدہ یا والد کی پہلی آواز پر فوراً ان کے پاس پہنچو تاکہ دوسری آواز کی نوبت نہ آئے۔
**والدین کی ضروت اور تقاضا اس طرح پورا کرو کہ شکایت نہ ہو۔
**بیوی کی غلطی پر اسے بار بار دوسرو ں کے سامنے ذلیل نہ کرو۔
**سالن اچھا نہ پکا ہو تو بیوی یا والدہ سے بلند آواز یا کسی بھی طرح سے شکایت نہ کرو۔
**کبھی کپڑوں پر استری ٹھیک نہ ہو تو شکایت کرنے کی بجائے خود استری ٹھیک کرلو۔
**بچوں کی پڑھائی کے وقت اور کھیل میں بھی ان کی مدد کرو۔
**دوستیاں کرو سنبھالنے کیلئے اور دوستوں کے کام آؤکہ جب ان کو ضرورت ہو۔
**رشتہ داریوں کو دل سے نبھاؤ، صرف لفظوں سے نہیں۔
** ناراضی الفاظ سے کرو دل سے نہیں ورنہ وہ بغض اور کینہ کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
**لوگوں کے مسائل غور سے سے سنو اور ان کو حل کرنے میں ان کی مدد کرو۔
**راستے میں مشکل پیدا کرنے والا پتھر ہٹا دینا بھی آسانی ہے۔
**پیاسے جانور کو بھی اگر پانی پلاؤ تو یہ آسانی ہے۔
**دوستوں اور اپنوںکو’’ پرچھائیں اورآئینے ‘‘کی طرح رکھو کیونکہ پرچھائیں کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی اور آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
**کسی کو قرض دے کر یا خیرات کرکے بار بار جتاکر ذلیل مت کرو۔
**کسی کو سڑک پار کرا دینا یا سود ا لاکر دے دینا بھی آسانیا ں ہیں۔
**محلے یا گھر کے کسی ملازم کے بچے کو مفت میں تعلیم دینا بھی آسانی ہے۔
**پڑوسیوں کا خیال رکھنا اور خیریت پوچھتے رہنا بھی آسانی ہے۔
**والدین کی طرف صرف مسکرا کر دیکھنا بھی آسانی ہے۔
**کسی کو مخلصانہ اور کارآمد مشورہ دینا بھی آسانی ہے۔ ایسی بہت سی آسانیاں ہیں جن کیلئے ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی اور دوسروں کو آسانیاں دینے والے دراصل اپنے لئے آسانیاں پیدا کر تے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم نہ صرف ایک دوسرے کے قریب ہوجاتے ہیں بلکہ دوسروں کے دل میں بھی جگہ بنالتے ہیں۔ پاکستان میں اب بھی محلے کے بچے سودا لاکر دے دیتے ہیں۔ کوئی ٹیلیفون ،بجلی یا پانی کابل جمع کرانے چلا جاتا ہے۔ اپنے بچوں کے سامنے اپنے بڑوں کے ساتھ تہذیب سے پیش آئیں اور خو د بھی ان کی خدمت کریں اور بچوں سے چھوٹے چھوٹے کام کروائیں تاکہ ان میں بڑوں کا احترام اور خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہو۔ ایسا کرنے سے بڑوں کی خدمت ہوگی آپ کیلئے آسانیاں پیدا ہونگی۔

شیئر: