Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لانگ مارچ میں کتنے لوگ اسلام آباد پہنچیں گے؟

رینجرز کے چار ہزار اہلکار بھی وفاقی دارالحکومت میں تعینات کیے جائیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پی ٹی آئی کا لانگ مارچ سوموار کو چوتھے دن گوجرانوالہ پہنچا ہے تاہم پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے مطابق اسے ابھی اسلام آباد پہنچنے میں آٹھ سے نو روز لگیں گے۔
ایک اعلی حکومتی اہلکار نے اردو نیوز کو بتایا کہ سویلین ایجنسیوں نے اسلام آباد میں خیبرپختونخوا اور پنجاب سے آنے والے افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد کا اندازہ پچاس ہزار تک لگایا ہے۔
حکومتی اہلکار کے مطابق یہی وجہ ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ لانگ مارچ میں تصادم اور تشدد کے واقعات روکنے کے لیے اعلی عدلیہ سے رجوع کیا جائے تاکہ پی ٹی آئی کا لانگ مارچ اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
دوسری طرف حکومت نے لانگ مارچ کے اسلام آباد میں داخلے کی صورت میں دفاعی لائن کو مزید وسعت دیتے ہوئے ریڈ زون کو زیرو پوائنٹ تک بڑھا دیا ہے۔ 
سوموار کو وفاقی وزارت داخلہ نے ریڈ زون کی زیرو پوائنٹ تک توسیع کا نقشہ جاری کیا ہے، جہاں حکومت کی جانب سے دفعہ 144 نافذ رہے گی۔
حکومت کی جانب سے ریڈ زون میں شامل کیے گئے علاقوں میں زیرو پوائنٹ تک کا علاقہ، فیصل ایونیو، مارگلہ روڈ، بری امام اور ففتھ ایونیو شامل ہے۔
توسیع شدہ علاقے میں ریلی، جلسے یا اجتماع کی اجازت نہیں ہوگی۔
حکومتی اہلکار کے مطابق توسیع زدہ ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والوں کو ہر صورت روکا جائے گا اور اس سلسلے میں پولیس کے ساتھ ساتھ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی فرنٹ لائن پر موجود ہوں گے۔

سوموار کو وفاقی وزارت داخلہ نے ریڈ زون کی زیرو پوائنٹ تک توسیع کا نقشہ جاری کیا ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ذرائع کے مطابق لانگ مارچ کے شرکا کو طے شدہ مقام کے علاوہ کہیں جانے سے روکنے کے لیے وفاقی دارلحکومت میں 20 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔
پی ٹی آئی مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پنجاب کانسٹیبلری کے 8 ہزار اور اینٹی رائٹس فورس اور سندھ پولیس کے دو، دو ہزار اہلکار طلب کیے گئے ہیں، جب کہ 500 خواتین اہلکار بھی سکیورٹی کے فرائض انجام دیں گی۔
رینجرز کے چار ہزار اہلکار بھی وفاقی دارالحکومت میں تعینات کیے جائیں گے، صوبوں سے قیدیوں کی 100 گاڑیاں اور احتجاج اور مظاہرین کو روکنے کے لیے آنسو گیس کے 15 ہزار شیل بھی مانگ لیے گئے ہیں۔

اسلحے کے ساتھ آنے کے بیانات فیس سیونگ کی کوشش ؟

حکومتی اہلکار کے مطابق سوموار کو خیبرپختونخوا کے وزیر برائے اعلٰی تعلیم کامران بنگش کے بیان سے بھی حکومتی موقف کو تقویت ملی ہے کہ پی ٹی آئی مارچ میں خونریزی چاہتی ہے۔
یاد رہے کہ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کامران بنگش نے کہا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکار اپنی حفاظت کے لیے لائسنس والا اسلحہ بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔ اور ’اگر حکومت نے غنڈہ گردی کی تو اپنے دفاع کا حق رکھتے ہیں۔‘

سابق وزیراعظم کے لانگ مارچ کے باجود حکومتی حلقوں میں اس قدر تشویش نہیں پائی جا رہی جیسے 25 مئی کے لانگ مارچ کے وقت تھی۔ (فوٹو: فیس بک)

حکومتی اہلکار کا دعویٰ تھا کہ اس طرح کے بیانات کا واضح مقصد یہ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی بھی اسلام آباد میں داخل نہیں ہونا چاہتی اور اسے فیس سیونگ کی ضرورت ہے۔  انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ عمران خان نے اسلام آباد پہنچنے کا عمل مزید طویل کرتے ہوئے آٹھ نو دن مزید لگنے کا عندیہ دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی تصادم نہیں چاہتے  بلکہ کسی طرح مارچ کو پہلے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ اسلحہ لانے کے بیانات سے قبل طے کیا گیا تھا کہ اگر پی ٹی آئی طے شدہ جگہ پر پرامن احتجاج کرتی ہے تو اسے اجازت دینے پر غور کیا جائے گا تاہم اسے بتانا ہو گا کہ اسے کتنے دن احتجاج کرنا ہے۔
سابق وزیراعظم کے لانگ مارچ کے باجود حکومتی حلقوں میں اس قدر تشویش نہیں پائی جا رہی جیسے 25 مئی کے لانگ مارچ کے وقت تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس اطمینان کی ایک وجہ شاید گذشتہ دنوں پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کے ساتھ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی پریس کانفرنس بھی ہے جس میں نام لیے بغیر عمران خان کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی گئی تھی۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اس پریس کانفرنس سے حکومت کو خاصا حوصلہ ملا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے ساتھ کوئی ڈیل نہیں کرے گی اور لانگ مارچ میں حکومت کو اس کا ساتھ میسر رہے گا۔

شیئر: