Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

توہین عدالت کیس: سپریم کورٹ کو یقین دہائی کس نے کرائی تھی؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں جواب جمع کرا دیا گیا ہے جس میں انھوں نے 25 مئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے پی ٹی آئی لیڈر شپ کی جانب سے  سپریم کورٹ میں کرائی کسی یقین دہانی سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
جبکہ تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا ہے کہ انھوں نے عدالت میں عمران خان کا نام ہی نہیں لیا تھا اعلیٰ قیادت کی بات کی تھی۔ دوسری جانب فیصل چوہدری نے بال بابر اعوان کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت دو نومبر تک ملتوی کردی۔ اگلی سماعت کے دوران جوابات کا جائزہ لیا جائے گا۔ 
عمران خان، بابر اعوان اور فیصل چوہدری کے جوابات
پیر کو عمران خان نے بابر اعوان کی جانب سے عدالت میں دی گئی یقین دہانی سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایسی کسی یقینی دہانی کے بارے میں لاعلم ہیں۔ 
عمران خان نے اپنے جواب میں کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتا ہوں۔ سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عمران خان نے تفصیلی جواب کے لیے عدالت سے تین نومبر تک کی مہلت مانگ لی۔ 
بابر اعوان نے اپنے جواب میں 25 مئی کے موقف کے برعکس کہا ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں مقدمہ میں فریق تھے نہ ہی کسی ادارے کی رپورٹ میں ان کا نام آیا ہے۔ 
انھوں نے کہا کہ 25 مئی کو عمران خان کا نام کسی وکیل نے نہیں لیا تھا، نہ ہی عدالتی حکم میں کہیں عمران خان کا نام لکھا گیا تھا۔ 25 مئی کے عدالتی حکم میں پی ٹی آئی کی اعلی قیادت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ 

25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کرکے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے تحریری جواب میں ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا ہے کہ ’نہ تو درخواست گزار ہوں نہ ہی لانگ مارچ کیس میں فریق تھا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی قیادت بھی فریق نہیں تھی نہ ان کی وکالت کر رہا تھا۔‘
فیصل چوہدری نے جواب میں کہا ہے کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے اسد عمر کو عدالتی احکامات سے آگاہ کرتے ہوئے ہدایات لیں۔ عدالت نے عمران خان سے ملاقات کا بندوبست کرنے کا حکم دیا جس پر انتظامیہ نے عمل نہیں کیا۔

 25 مئی کو کیا ہوا تھا؟ 

25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پشاور سے لانگ مارچ کا آغاز کرکے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس وقت پنجاب میں بھی پی ڈی ایم کی حکومت موجود تھی جنھوں نے اٹک سے آگے تمام راستے بند کر رکھے تھے۔ اس وجہ سے تصادم کا خدشہ تھا۔ اس حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی کہ راستے کھولے جائیں اور تصادم کا راستہ روکا جائے۔
اس درخواست کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی تھی۔ بینچ میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مظاہر علی نقوی شامل تھے۔ 
بینچ نے صبح سے لے کر شام پانچ بجے تک تین وقفوں میں سماعت کی۔ اس دوران عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان اور فیصل چودھری کو متعدد بار اپنی پارٹی قیادت سے مشاورت کے لیے وقت دیا۔ 
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے کہا کہ میں نے عمران خان سے ہدایات لی ہیں اور انھوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم عدالت کے احکامات پر عمل درآمد کریں گے اور پر امن احتجاج کریں گے جس سے عام شہریوں کی زندگی متاثرنہیں ہوگی۔
انھوں نے عدالت سے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت حکومت کو سری نگر ہائی وے پر دھرنا دینے، بغیر ایف آئی آر گرفتار کیے گئے کارکنان کو رہا کرنے اور راستوں سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دے۔ عمران خان نے بابر اعوان، عامر کیانی، علی نواز اعوان اور فیصل چوہدری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو حکومت سے بات چیت کرے گی۔

سپریم کورٹ نے تمام گرفتار رہنماؤں، کارکنان اور وکلاء کو فوری رہا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

دن بھر کی سماعت، متعدد وقفوں اور یقین دہانیوں کے بعد عدالت نے تحریک انصاف کو کشمیر ہائی وے سے ملحق گراؤنڈ میں احتجاج کی اجازت دے دی تھی۔ عدالت نے حکومت کو تحریک انصاف کو احتجاج کے لیے سکیورٹی دینے اور رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا۔ 
سپریم کورٹ نے تمام گرفتار رہنماؤں، کارکنان اور وکلاء کو فوری رہا کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔ 
سپریم کورٹ نے فوری طور پر بابر اعوان، عامر کیا، علی نواز اعوان اور فیصل چوہدری کو عمران خان سے ملاقات کرکے عدالتی فیصلے سے متعلق آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ 
ابھی اس فیصلے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد بھی نہیں ہوا تھا کہ عمران خان نے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دے دی تھی۔ اس کے بعد ایکسپریس چوک پر پولیس اور کارکنان کے درمیان تصادم بھی ہوا۔ عمران خان کی جانب سے اگرچہ دھرنا نہیں دیا گیا لیکن عدالت میں کرائی گئی یقین دہانی کے برعکس انھوں نے 26 مئی کی صبح جناح ایونیو پر شرکا سے خطاب کیا اور لانگ مارچ منتشر کر دیا۔ 
عدلتی حکم پر عملدر آمد نہ ہونے کے خلاف حکومت کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ 

 26 مئی کا عدالتی حکم نامہ 

26  مئی کو جب اٹارنی جنرل کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی تو اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت نے کل سماعت کی جس میں تحریک انصاف کے وکیل بھی موجود تھے۔ انھوں نے عمران خان سے مشاورت کے بعد حکومت سے ایچ نائن گراؤنڈ مانگا اور عدالت نے حکم دیا کہ انھیں گراؤنڈ دینے، راستے کھولنے، گرفتار کارکنوں کی رہائی اور سکیورٹی اقدامات کا حکم دیا۔  
انھوں نے کہا کہ ’جونہی عدالت کا حکم جاری ہوا اس کے فوراً بعد عمران خان نے کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کی کال دی۔ یہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی تھی۔ سکیورٹی انتظامات کے رد و بدل کے بعد پی ٹی آئی ورکرز نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔‘

جسٹس یحیٰ آفریدی نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا اقلیتی فیصلہ جاری کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اٹارنی جنرل نے عمران خان کے گزشتہ روز کا ویڈیو کلپ عدالت میں دکھایا جس کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ممکن ہے کہ عمران خان کو عدالت کے فیصلے سے متعلق درست طریقے سے آگاہ نہ کیا گیا ہو۔ سپریم کورٹ نے آئینی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ ہمارے علم میں آیا ہے کہ جگہ جگہ آگ لگائی گئی۔ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مسلسل شیلنگ کی۔‘
عدالت نے اس حوالے سے دو جون کو تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے 25 مئی کے واقعات اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں اکثریتی فیصلہ میں متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی آئی بی، سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور چیف کمشنر اسلام آباد سے جواب طلب کیا۔ عدالت نے پوچھا کہ عمران خان نے کتنے بجے پارٹی ورکرز کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی تھی؟ کب،کہاں اور کس طرح مظاہرین نے ممنوعہ جگہ پر داخلے کے لئے بیرئیر پار کیا تھا؟ آیا کہ ریڈ زون میں گھسنے والامجمع منظم تھا؟ کسی کی نگرانی میں تھا یا اچانک داخل ہوگیا تھا؟عدالت نے پوچھا ہے کہ کیا کوئی اشتعال انگیزی ہوئی تھی یا حکومت کی یقین دہانی کی خلاف ورزی ہوئی تھی ؟ کیا پولیس نے مظاہرین کے خلاف غیرمتوازن کارروائی کی ہے؟ کتنے مظاہرین ریڈزون میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے؟
 اگر ریڈزون کی سکیورٹی کے انتظامات تھے تو کیا حکام نے نرمی کی تھی؟ کیا مظاہرین نے سکیورٹی بیریئر کو توڑکر عدالتی عہد نامہ کی خلاف ورزی کی تھی؟
عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا مظاہرین میں سے کوئی لیڈر یا پارٹی ورکر جی نائن یا ایچ نائن گرائونڈ میں پہنچا تھا؟ پولیس تصادم سے کتنے سویلین زخمی یا ہلاک ہوئے؟ ہسپتال پہنچنے یا گرفتار کیے گئے ہیں؟ 
جسٹس یحیٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا اقلیتی فیصلہ جاری کیا تھا۔

 اداروں کی رپورٹس میں کیا تھا؟ 

آئی ایس آئی، آئی بی اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹس ابتدائی طور پر خفیہ رکھیں گئیں لیکن گزشتہ ہفتے یہ رپورٹس اٹارنی جنرل آفس کو فراہم کرتے ہوئے ان پر اٹارنی جنرل سے جواب مانگا گیا۔ 

فیصل چوہدری نے جواب میں کہا ہے کہ ڈاکٹر بابر اعوان نے اسد عمر کو عدالتی احکامات سے آگاہ کرتے ہوئے ہدایات لیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

رپورٹس میں عدالتی سوالوں کے جواب میں بتایا گیا کہ عدالت کا پہلا سوال تھا کہ عمران خان نے ڈی چوک آنے کی کال کب دی تھی۔عدالتی حکم 25 مئی کو شام 6 بجے آیا تھا، عمران خان نے 6 بج کر 50 منٹ پر ڈی چوک کا اعلان کیا۔عمران خان نے دوسرا اعلان 9 بج کر 54 منٹ پر کیا۔
عمران خان نے عدالتی حکم سے پہلے بھی ڈی چوک جانے کا اعلان کیا تھا، عمران خان کے بعد شیری مزاری،فواد چودھری،صداقت عباسی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔
عثمان ڈار ،شہباز گل اور سیف اللہ نیازی نے بھی ڈی چوک کی کال دی۔عمران خان کی ڈی چوک کال توہین عدالت ہے۔عمران خان مختص جگہ سے آگے آئے اور ریلی ختم کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جب رپورٹس کا لب لباب عدالت کے سامنے رکھا تو چیف جسٹس نے کہا کہ مناسب ہو گا حکومتی الزامات پر یقین دہانی کرانے والوں سے جواب مانگ لیں۔ تحریری مواد نہ ہوتو کسی کو بلانے کا فائدہ نہیں۔ رپورٹس میں اتنا جواز موجود ہے کہ عمران خان سے جواب مانگا جائے۔

شیئر: