Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بطور سابق وزیراعظم سب سے زیادہ کیسز عمران خان کے خلاف بن رہے ہیں؟

عمران خان 25 مئی کو لانگ مارچ اسلام آباد لے کر آئے تو ان کے خلاف امن عامہ خراب کرنے کی دفعات کے تحت کئی مقدمات درج کیے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو سائفر کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں میں ایف آئی اے کی جانب سے جمعرات کو طلب کیا گیا ہے۔
رواں سال اپریل میں جب سے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا ہے ان کے خلاف تقریباً ہر ہفتے ہی ایک نیا کیس سامنے آ رہا ہے اور وہ ملک کے ان وزرائےاعظم میں شامل ہو گئے ہیں جن کے خلاف سب سے زیادہ کیسز بنے ہیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد 10 اپریل کو کامیاب ہوئی اور تین ہفتوں بعد ہی ان کے خلاف پہلی ایف آئی آر مسجدِ نبوی میں نعرے بازی کے واقعے کے حوالے سے پاکستان میں درج کی گئی۔
اس کے بعد 25 مئی کو وہ لانگ مارچ اسلام آباد لے کر آئے تو ان کے خلاف امن عامہ خراب کرنے کی دفعات کے تحت کئی مقدمات درج کیے گئے، جن میں ان کے وکلا نے ضمانتیں حاصل کیں۔ تاہم 25 مارچ کو عدالت کی جانب سے ڈی چوک کی طرف نہ آنے کے حکم کی مبینہ خلاف ورزی پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا کیس ابھی بھی زیر سماعت ہے جسے خاصا اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
عمران خان کے خلاف شہباز گل کی ضمانت مسترد کرنے والی خاتون جج کو مبینہ دھمکی دینے کے معاملے پر 21 اگست کو سول مجسٹریٹ کی مدعیت میں اسلام آباد کے مارگلہ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔

عمران خان کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا کیس ابھی بھی زیر سماعت ہے جسے خاصا اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لیکن 19 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خاتون جج کے لیے دھمکی آمیز بیان کے مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کا حکم دیا تھا۔ بعد میں خاتون جج سے معافی مانگنے کے بعد عدالت نے ان کے خلاف توہین عدالت کا کیس بھی ختم کر دیا تھا۔
گزشتہ ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ممنوعہ فنڈنگ کیس کو منی لانڈرنگ کیس میں تبدیل کرتے ہوئے عمران خان کو مرکزی ملزم نامزد کر دیا، جس کے تحت انہیں طلبی کا نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن میں ان کے خلاف علیحدہ مقدمات چلتے رہے جن میں سب سے پہلے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ آیا۔
اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی پر بیرونِ ملک سے ممنوعہ فنڈز لینے کے الزامات ثابت ہوئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے پی ٹی آئی کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا کہ کیوں نہ یہ فنڈز ضبط کر لیے جائیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
وفاقی کابینہ نے پارٹی کی تحلیل کا ڈیکلریشن سپریم کورٹ بھیجنے کا اعلان کیا تھا تاہم اب تک اس پر کوئی مزید پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

عمران خان کو سائفر کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں میں ایف آئی اے کی جانب سے جمعرات کو طلب کیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری طرف الیکشن کمیشن کے ہی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے بطور چیئرمین پی ٹی آئی سال 2008 سے 2013 تک کے لیے جو سرٹیفکیٹ جمع کروایا تھا وہ سٹیٹ بینک کے ریکارڈ کے مطابق غلط ہے جس کے بعد ان کے مخالفین نے دعویٰ کیا تھا کہ ’غلط بیانی کرنے پر عمران خان صادق اور امین نہیں رہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار پا سکتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ عمران خان اور ان کی جماعت نے 16 بینک اکاؤنٹس چھپائے۔
اس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے بھیجے گئے توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان پر اثاثے چھپانے کا الزام درست قرار دیتے ہوئے انہیں گزشتہ ماہ نااہل قرار دیا تھا اور انہیں ڈی سیٹ کر دیا تھا۔
ایف آئی اے اور نیب میں بھی سابق وزیراعظم کے خلاف سائفر، ممنوعہ فنڈنگ اور لندن سے پراپرٹی ٹائیکون کی ضبط شدہ رقم اس کے کھاتے میں جمع کروانے کے کیسز بھی چل رہے ہیں۔

’عمران خان کے خلاف 23 کیسز ہیں‘

عمران خان کے متعدد کیسز میں وکیل فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف23 کے قریب فوجداری مقدمات چل رہے ہیں۔

عمران خان کے بعد سب سے زیادہ کیسز سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بنائے گئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ان کا مقصد حکومت کی جانب سے عمران خان کو انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔‘
فیصل چوہدری کے مطابق الیکشن کمیشن، نیب اور ایف آئی اے میں سابق عمران خان کے خلاف علیحدہ علیحدہ نوعیت کے کیسز بنائے گئے اور ان میں 17 کیسز میں تو وہ خود ہی وکالت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف جتنے کیسز بنائے گئے ہیں ان کی نظیر نہیں ملتی۔

باقی سابق وزرائے اعظم کے خلاف کیسز

سابق وزیراعظم عمران خان کے بعد سب سے زیادہ کیسز سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بنائے گئے ہیں۔ اکتوبر 1999 میں جب ان کی حکومت برطرف کی گئی تھی تو ان کے خلاف سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں طیارہ سازش کیس کے علاوہ حدیبیہ ریفرنس بھی بنایا گیا تھا، جنہیں بعد میں مشرف اور نواز شریف کے درمیان معاہدے کے تحت نواز شریف کے جدہ روانگی کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔
تاہم بطور وزیراعظم نواز شریف کے تیسرے دور حکومت میں پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی 2017 کو نااہلی کے بعد ان کے خلاف متعدد کیسز بنائے گئے۔ ان میں نیب کے ایون فیلڈ ریفرنس اور عزیزیہ ریفرنس وہ کیسز تھے جن میں سزا کے بعد نواز شریف کو جیل بھی جانا پڑا تھا۔
اس کے علاوہ ان کے خلاف نیب میں توشہ خانہ ریفرنس اور ایل ڈی اے ریفرنس بھی دائر کیے گئے۔ نواز شریف کے خلاف پاکپتن میں اوقاف کی زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ کا کیس بھی بنایا گیا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے 28 جولائی 2017 کو نااہلی کے بعد نواز شریف کے خلاف متعدد کیسز بنائے گئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف کی وکلا کی ٹیم کے رکن جہانگیر جدون کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کے خلاف کیسز بھی سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے تھے۔‘
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف سب سے زیادہ کیسز ہیں تو ’قانون کی زیادہ خلاف ورزیاں بھی انہوں نے ہی کی ہیں۔‘
سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف کے خلاف بھی ان کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد کیسز بنائے گئے تھے جن میں سے کئی میں وہ بری ہوئے اور کچھ ابھی تک چل رہے ہیں۔

شیئر: