Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیغامِ اسلام کانفرنس، عالمی اسلامی فکری اتحاد کی طرف اہم قدم

5 ہزار سے زائد علماء و مشائخ کی جانب سے ارض حرمین الشریفین کے دفاع تحفظ اور سلامتی بیعت ،سعودی عرب کی قیادت میں عالمی اسلامی عسکری اتحاد کے قیام کی مکمل تائید و حمایت
* * * * ابو محمد عمر مکوانی۔ اسلام آباد* * * * *
حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کے زیر قیادت پاکستان علماء کونسل کے زیر اہتمام دوسری عالمی پیغام ِاسلام کانفرنس نا مساعد حالات اور مخالفانہ پروپیگنڈہ کے طوفان کے باوجود انتہائی کامیاب رہی۔ اسلام آباد کا کنونشن سینٹر اپنی وسعتوں کے باوجود اپنی تنگ دامنی پر شک کناں دکھائی دیا۔ ملک کے طول وعرض سے منتخب علمائے کرام قافلوں کی صورت میں پہنچے۔ نامور علمی شخصیات اور دینی قائدین کے ساتھ ساتھ میڈیا ، سیاست اور سفارت کاری سے متعلق شخصیات بھی ہال میں موجود تھیں۔اپنی حاضری، اہل علم کی نمائندگی اورحسن انتظامات کے ساتھ ساتھ اپنے پیغام اور پیشرفت کے حوالہ سے بھی یہ کانفرنس کامیاب ترین اور اپنی مثال آپ قرار دی جارہی ہے خصوصاً صدر آزاد کشمیر ،اور سعودی وزارت مذہبی امور کے اہم ذمہ داران کی موجودگی اہم قرار دی جارہی ہے ۔
اس کانفرنس کے موقع پر’’ عالمی اسلامی فکری اتحاد ‘‘کے قیام کا اعلان بین الاقوامی سطح پر ایک بڑی ضرورت کی تکمیل اور اپنی حیثیت میں اہم پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ، یہی سبب ہے کہ عالمی میڈیا خصوصی طور پر عرب میڈیا نے اس کانفرنس کوبہت نمایاں کوریج دی اور5 ہزار مندوبین کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف عزم اور واضح پیغام دینے کو سراہا اور اسے عالمی امن کے لئے اہم قرار دیا ۔کانفرنس میں منظور کردہ 9نکاتی اعلامیہ بھی نہ صرف وقت کی آواز بلکہ عالم اسلام خصوصاًکے حوالہ اہم دستاویز کے طور سامنے آیا ہے جس میں دہشت گردی کی کھلی مذمت کی گئی اور مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے ساتھ ساتھ شام اور یمن کی بھی بات کی گئی ہے اور اس اعلامیہ میں توہین رسالت کے حوالہ سے حساسیت کا مظاہرہ کیا جانا بھی اہم ہے ۔ تاریخی ریکارڈ کی بات کی جائے تو اس سلسلہ کی پہلی کانفرنس’’ پیغام اسلاف کانفرنس ‘‘کے نام سے لاہور الحمرا میں منعقد ہوئی اور اس کے بعد 2016میں پیغام اسلام کانفرنس اسلام آباد کے اسی کنونشن سینٹر میںہوئی جس میں مفتی اعظم فلسطین الشیخ محمد حسین مہمان خصوصی تھے ۔اہم حکومتی عمائدین کے ساتھ ساتھ تمام بڑے مسلم ممالک سے علما ء کے وفود کی آمد پاکستان ، پاکستان علماء کونسل اور اس کی قیادت پر اعتماد کا اظہار تھا ، مجموعی طور پر پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین اور وفاق المساجد پاکستان کے صدر حافظ طاہر محمود اشرفی کے زیر قیادت یہ تیسری کانفرنس تھی مگر پیغام اسلام کے نام سے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ہونے والی یہ دوسری کانفرنس تھی اسی لئے اسے دوسری پیغام اسلام کانفرنس کہا گیا ۔اس کا مقصد عالمی سطح پر پاکستانی علماء کی جانب سے دہشت گردی ،دہشت گردتنظیموں اور انتہا پسندانہ بیانیہ سے لاتعلقی اور اسلام کے سچے اور حقیقی پیغام کا اعلان تھا ، جس میںیہ کانفرنس پوری طرح سے کامیاب رہی ۔
بر سر زمین حقیقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں دہشتگردی کے حوالہ سے گمبھیر صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ دہشت گردی صرف خونریزی کی شکل میں ہی انسانیت کا منہ نہیں چڑا رہی بلکہ بیانئے کی سطح پر اسلام کے پیغام ،تعلیمات اور عقائد پر بھی حملہ آور ہے۔ایک طرف دہشت گرد عناصر اسلام کے نام پر غیر اسلامی اور غیر انسانی عقائد کو ترویج دیکر پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان کے باطل عقائد کی آڑ میں اسلام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے اہم رکن جہاد کے منکرین اپنا الو سیدھا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کیلئے دہشت گردوں کی کارروائیاں اور بیانیہ ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت سے کم نہیں ۔ان سنگین حالات میں علماء کی خاموشی اور خلوت نشینی عالم اسلام کے لئے فکری اور عملی میدانوں میں نقصان کا سبب بن رہی تھی مگر پاکستان علماء کونسل خصوصاً اس کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے پیغام اسلام کے نام سے پے در پے 2کانفرنسیںکرکے نہ صرف جمود کو توڑا ہے بلکہ اسلام کا حقیقی بیانیہ سامنے لاکر دہشت گردوں ،ان کے ہنڈلرز اور فائدہ اٹھانے والے عناصر کے عزائم کو خاک کردیا ہے۔ اب کوئی شپرہ چشم یہ نہیں کہ سکے گا کہ دینی قیادت خاموش رہ کر دہشت گردوں کو جواز فراہم کررہی ہے ، یہی اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ہے ۔ 2017 کی کانفرنس کے لئے 12 اپریل کی تاریخ طے شدہ تھی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کانفرنس سے پہلے پاکستان کے اندر سے بعض خود غرض اور پیشہ ور چندہ خور عناصر نے اس کے خلاف سازشوں کا ہنگامہ اٹھا دیا۔ ان کے شعور کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے تعارف کے لئے الفاظ تک دستیاب نہیں۔
سفارتی نزاکتوں کی الف بے نہیں جانتے اور غیر ملکی حکمرانوں کو اس کانفرنس کے خلاف خطوط لکھنے بیٹھ گئے یہ بھی نہ سوچا کہ اس سے ملک کی جگ ہنسائی کا پہلو نکلے گا اندرون ملک لوگوں کی منتیں کی گئیں کہ کوئی اس کانفرنس میں نہ جائے مگر سب بے سود رہا او ر بد نیتی کے مقابلہ میں نیک نیتی اور خلوص کی جیت ہوئی کہ نہ صرف جامعہ منظورلاسلامیہ اور جامعہ اشرفیہ جیسے معتبر مدارس ساتھ کھڑے ہوئے بلکہ جامعہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث ڈاکٹر سعید عنایت اللہ ،الشیخ عبدلحفیظ مکی ؒ کے صاحبزادے مولانا عبد الرئوف ملک،حافظ حسین احمد اور حضرت مولانا پیر عزیز الرحمن ہزاروی جیسی شخصیات نے اس کانفرنس کو رونق بخشی۔ اسلام آباد کی شہریوں نے دیکھا کہ کانفرنس میں مندوبین کی بسیںپاکستان علماء کونسل کے پرچم سجائے علی الصباح ہی اسلام آباد ہائی وے سے ہوتی ہوئی کنونشن سینٹر کی جانب جا رہی تھیں ۔
کانفرنس کے پہلے سیشن کی صدارت پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی نے کی جبکہ بعد از دوپہر دوسری نشست کی صدارت آزاد جمو ںوکشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کی ۔ کانفرنس میں شریک 5 ہزار سے زائد علماء نے کھڑے ہوکر اس امر کی بیعت دی کہ وہ اللہ کے گھر بیت اللہ اور روضہ رسول کی حفاظت کیلئے اپنی جان مال اور اولاد تک قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔ اس موقع پر شام سے آیا ہوا علماء کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جس میں علماء نے بتایا کہ کس طرح اسدی فوجیں وہاں عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں ۔پہلے سیشن سے اپنے صدارتی خطاب میں طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ ہم اللہ کی توحید،ناموس رسالت اور صحابہ کرام ؓکی عزت و حرمت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ حرمین شریفین اور پاکستان کے دفاع کی خاطر متحد ہیںاور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور آپریشن رد الفساد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔دوسرے سیشن سے صدارتی خطاب میں صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کہا کہ اقو ام متحدہ اور مغربی ممالک کے دہرے معیار کے سبب کشمیر اور فلسطین کے مسئلے حل نہیں ہورہے،ان کے ہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لئے الگ الگ پیمانے ہی نا انصافی کا بنیادی سبب ہیں۔ ہند یاد رکھے کہ کشمیر میں وہ قطعی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔
امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی خاطر اپنی صفوں میں اتحاد پیداکرنا ہوگا۔ ہم بین المذاہب ہم آہنگی کے داعی ہیں۔ اسلام ہمیںفلاح انسانیت اور امن کا درس دیتا ہے۔ مغرب جانتا ہے کہ اسلام میانہ روی اور اعتدال کا دین ہے مگر صرف اپنے مفاد کی خاطر بدنام کرتا رہتا ہے ، ہمیں خود پیغام اسلام کانفرنسوں کے ذریعہ سے اسلام کا اصل پیغام سامنے لانا ہوگا تاکہ سازشوں کو ناکام بنایا جا سکے ۔ سعودی حکومت کے نمائندہ ڈاکٹر ا لشیخ طلال العقیل نے کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان ایک ہی ملک ہے ، ہمارا دشمن بھی ایک ہے ، جو حرمین شریفین مکہ و مدینہ سے نفرت کرتا ہے ،دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے ملک سے محبت کرتے ہیں،انہیں کوئی جدا نہیں کر سکتا ۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے استحکام اور حرمین شریفین کے تحفظ کی خاطر حافظ طاہر اشرفی کی خدمات کا اعتراف سعودی عوام اور میڈیا میں کیا جاتا ہے ۔ سعودی وزیر مذہبی امور کے مشیر خاص ڈاکٹرراشد الزہرانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات مین کوئی خرابی پیدا نہیں کرسکتا۔دونوں ملکوں کا امن و استحکام ایک دوسرے سے جڑا ہے ،پاکستانی قوم اور فوج نے دہشتگردی اور انتہا پسندی کو شکست دی ۔
اسی طرح سعودی ارضِ حرمین کے تحفظ کی خاطر سعودی عرب کی قیادت اور عوام متحد اور منظم ہیں،انہوں نے عاصفۃالحزم کے ذریعے عرب ممالک کے امن و استحکام سے کھیلنے والوں کو شکست سے دوچار کیا ۔ انٹر نیشنل ختم نبوت موومنٹ کے سربراہ اور مکہ مکرمہ کے مدرسہ صولتیہ کے شیخ الحدیث ڈاکٹر سعید عنایت اللہ نے کہا کہ علمائے دین نبی اکرم حضرت محمد کی تعلیمات کے وارث ہیں،اب نبوت کا سلسلہ بند ہوچکا ۔ دین کی تبلیغ اور اس کا دفاع انہی علماء نے کرنا ہے ۔ جے یو آئی کے رہنما حافظ حسین احمد نے کانفرنس منعقد کرنے پر علماء کونسل کو خراج تحسین پیش کیا۔جمعیت اہلحدیث کے سربراہ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر نے اپنی پر جوش تقریر میں کہا کہ حرمین شریفین کا تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے ، ہماری گردنین کٹ تو سکتی ہیں مگر کفار کے آگے جھک نہیں سکتیں۔ مقررین نے اسلامی اتحادی افواج کی قیادت کے لئے جنرل راحیل شریف کے انتخاب کی بھی تعریف کی اور کہا کہ اس سے امت مسلمہ کے اتحاد کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے میں مدد ملے گی ۔ کانفرنس سے دیگر مسلم ممالک سے مندوبین بھی شریک ہوئے جن میں ترکی کے نمائندہ کاشف نے کہا کہ پاکستان اور ترکی میں خود کش حملے کرنے والے ناکام ہونگے ، بے گناہوں کا خون بہانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
کانفرنس سے دیگر مقررین کے علاوہ علماء کونسل کے مرکزی سیکریٹری جنرل مولانا عبد الحمید وٹو، پیر اسداللہ فاروق،صدر سندھ مولانا اسد زکریا،مولانا انوارلحق مجاہد،عبدالقدوس گجر،عمر عثمانی،قاری ادریس قاسمی ،طلبا کونسل کے صدر مفتی شہباز عالم فاروقی،مولانا الیاس گھمن ،مولانا عبدالحمید صابری ،مولانا ایوب صفدر،مولانا اویس قاسمی،مولانا طاہر عقیل،قاری ممتاز ربانی،مولانا شفیع قاسمی اور مولانا نعمان حاشر نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس میں حافط طاہر محمود اشرفی نے ایک 9نکاتی اعلامیہ منظوری کے لئے پیش کیا جس کی شرکا نے کھڑے ہو کر منظوری دی ۔اس اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ:
٭ یہ کانفرنس ہر قسم کی دہشتگردی اور فرقہ واریت کو مسترد کرتی ہے اور اعلان کرتی ہے کہ داعش اور ان جیسے عقائد رکھنے والی تنظیموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
٭ یہ کانفرنس پاکستان کی عالمی اسلامی عسکری اتحاد مین شمولیت کا خیر مقدم کرتی ہے اور جنرل راحیل کے تقرر کو پاکستان پر عالم اسلام کا اعتماد خیال کرتی ہے ،اور اس تقرر کو متنازعہ بنانے کی مذمت کرتی ہے۔
٭ ارض حرمین کا دفاع ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں اور اس کے دفاع کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
٭ کشمیر، فلسطین، عراق، شام اور میں ہونے والے مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہیں،اقوام متحدہ اور او آئی سی ان کے خاتمہ کیلئے عملی اقدام کریں ۔
٭ کانفرنس شام میں کیمیائی حملہ کی شدید مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ بشار الاسد حکومت کا خاتمہ کیا جائے۔
٭ آپریشن رد الفساد کی مکمل حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ عوامی سطح پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کیخلاف شعور بیدار کرنے کی خاطر مہم چلائی جائے ۔
٭ سوشل میڈیا پر توہین رسالتؐ کی مہم کی مذمت کرتے ہوئے مسلم ممالک کی قیادت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ توہین رسالت کو روکنے کی خاطر ہر سطح پر مشترکہ کوششیں کی جائیں۔
٭ یمن شام ،عراق میں بیرونی مداخلت کی مذمت اور ایران سے مطالبہ ہے کہ وہ عرب ممالک کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے مل بیٹھ کر معاملات حل کرے ۔اسلامی اور عرب ممالک میں مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی ۔
٭ حجاج کی خدمت پر سعودی حکومت کی خدمات کو سراہا جاتا ہے اور سعودی قیادت کی جانب سے ایرانی حجاج کے معاملہ پر مذاکرات کے لئے ایرانی قیادت کو دعوت کی پر زور حمایت کی جاتی ہے اور اس اقدام کی تحسین کی جاتی ہے ۔

شیئر: