Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’احکامات نہ ماننے والے‘ افسران کے خلاف کارروائی، قانون کیا کہتا ہے؟

افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے لانگ مارچ کے دوران وفاقی حکومت کی ہدایات کے مطابق کام نہیں کیا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ، اس پر ہونے والے حملے اور اس کے بعد احتجاج کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں وفاقی حکومت نے پنجاب میں تعینات کچھ افسران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے قانون کے مطابق کام نہیں کیا اور وفاقی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کیا ہے۔  
دوسری جانب کچھ افسران نے صوبائی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کیا ہے جن میں چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب پولیس شامل ہیں۔  
اس صورت حال کے تناظر میں وفاقی حکومت کو صوبے میں تعینات بعض افسران کے کنڈکٹ پر تشویش ہوئی ہے جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حالیہ لانگ مارچ کے دوران قانون کے مطابق احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے والے افسران کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ احکامات نہ صرف پنجاب بلکہ خیبرپختونخوا میں تعینات وفاقی سرکاری افسران کے لیے بھی دیے گئے ہیں۔ ان اداروں کے افسران سے متعلق رپورٹس کی بنیاد پر افسران کی پروموشن کا جائزہ لیا جائے گا۔ 
حکام کے مطابق قانون کے مطابق فرائض ادا نہ کرنے والے افسران کو پروموشن بورڈ میں سزا دی جائے گی جس کا غیرمعمولی اجلاس دسمبر کے پہلے ہفتے میں بلایا گیا ہے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں بلایا گیا ہے جب اگست کے وسط میں ہونے والے سابق بورڈ میں ہونے والی ترقیوں کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ 
حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پچھلے بورڈ میں ہونے والی ترقیوں کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے اور ایجنسیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر متعلقہ کمیٹی جاری سیاسی کشیدگی میں افسران کے طرز عمل کا جائزہ لے گی کہ آیا انہوں نے قانون کے مطابق کام کیا یا نہیں۔ 

وزیراعظم شہباز شریف نے لانگ مارچ کے دوران احکامات پر عمل نہ کرنے والے افسران کی رپورٹ طلب کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

 ایک ایسے وقت میں جب وفاق اور صوبے میں مخالف جماعتوں کی حکومت ہو تو صوبوں میں تعینات وفاقی سروسز کے افسران کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں اور وہ کس کے احکامات کے تابع ہوتے ہیں؟  
اس حوالے سے سابق بیوروکریٹ ہاشم پوپلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب کسی وفاقی سروس کے ملازم کی خدمات صوبے کے حوالے کر دی جاتی ہیں تو وہ روزمرہ کے معاملات میں صوبائی حکومت کے احکامات ماننے کا پابند ہوتا ہے کیونکہ اس کی تعینات صوبائی حکومت نے کی ہوتی ہے اور اس کی اے سی آر بھی صوبے میں ہی لکھی جا رہی ہوتی ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’اگر کسی جگہ پر ایسی نوبت آ جائے کہ وفاق اور صوبہ آمنے سامنے ہوں تو وہ قانون کی رو سے وفاق کے احکامات مانے گا اور تعیناتی بے شک صوبائی حکومت نے کی ہو اگر انضباطی کارروائی کی نوبت آ جائے تو وفاق ہی اس کے خلاف ایکشن لے گا۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے جب موجودہ حکومت نے سی سی پی او لاہور کو معطل کیا اور وہ ہائی کورٹ گئے تو ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی اور انھیں متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا کیونکہ ہائی کورٹ جانتی ہے کہ قانون کے مطابق وفاق اپنے افسر کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔‘  

 ذوالفقار چیمہ کے مطابق سی ایس ایس کر کے آںے والا وفاق اور پی سی ایس والا افسر صوبائی حکومت کا ملازم رہے گا‘ (فوٹو ایف پی ایس سی)  

اس حوالے سے سابق انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر ذوالفقار چیمہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بنیادی طور پر افسران اپنی پوری سروس کے دوران اسی حکومت کے ماتحت رہتے ہیں جو ان کو بھرتی کرتی ہے۔ اگر کوئی سی ایس ایس کرکے آیا ہے تو اس کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے بھرتی کیا ہوتا ہے تو وفاقی حکومت کی بھرتی کہلائے گا اور کسی نے پی سی ایس کے ذریعے ملازمت حاصل کی ہے تو وہ صوبائی حکومت کا ملازم ہی رہے گا۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’وفاقی سروسز کے ملازمین کا تمام کیریر بھی وفاقی حکومت ہی اسٹیبلمنٹ ڈویژن کے ذریعے ریگولیٹ کرتی ہے۔ افسران کی ترقیوں اور تبادلوں کا اختیار بھی وفاقی حکومت کے تحت ہی ہوتا ہے اور اگر وہ کسی ایک صوبے میں تعینات ہیں تو وفاق کو یہ اختیار ہے کہ وہ اس صوبے سے خدمات لے کر کسی دوسرے صوبے کے حوالے کر دے۔‘  
موجودہ صورت حال کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب دو مختلف جماعتیں وفاق اور صوبے میں حکومت میں ہوں سارے کام قانون کے مطابق ہوں تو ایسی صورت میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ مشکل تب پیش آتی ہے جب سیاست دان افسران کو غیر قانونی کام کرنے کا کہتے ہیں۔‘  
ڈاکٹر ذوالفقار چیمہ نے کہا کہ ’سیاست دانوں کو یہ سمجھانے اور بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ اگر چیف سیکرٹری اور آئی جی نے کام کرنے سے انکار کیا ہے تو انھیں ضرور کوئی غیر قانونی کام کرنے کا کہا گیا ہوگا ورنہ اتنے سینیئر افسران کام سے انکار کیوں کریں گے؟‘ 

شیئر: