پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کے لانگ مارچ، اس پر ہونے والے حملے اور اس کے بعد احتجاج کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں وفاقی حکومت نے پنجاب میں تعینات کچھ افسران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے قانون کے مطابق کام نہیں کیا اور وفاقی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کیا ہے۔
دوسری جانب کچھ افسران نے صوبائی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کیا ہے جن میں چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب پولیس شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
وفاقی حکومت کے خلاف صوبوں کا احتجاج، ماضی میں مثال ملتی ہے؟Node ID: 716071
-
صوبے میں گورنر راج کن حالات میں لگایا جا سکتا ہے؟Node ID: 716296
اس صورت حال کے تناظر میں وفاقی حکومت کو صوبے میں تعینات بعض افسران کے کنڈکٹ پر تشویش ہوئی ہے جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو حالیہ لانگ مارچ کے دوران قانون کے مطابق احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے والے افسران کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق یہ احکامات نہ صرف پنجاب بلکہ خیبرپختونخوا میں تعینات وفاقی سرکاری افسران کے لیے بھی دیے گئے ہیں۔ ان اداروں کے افسران سے متعلق رپورٹس کی بنیاد پر افسران کی پروموشن کا جائزہ لیا جائے گا۔
حکام کے مطابق قانون کے مطابق فرائض ادا نہ کرنے والے افسران کو پروموشن بورڈ میں سزا دی جائے گی جس کا غیرمعمولی اجلاس دسمبر کے پہلے ہفتے میں بلایا گیا ہے۔
یہ اجلاس ایسے وقت میں بلایا گیا ہے جب اگست کے وسط میں ہونے والے سابق بورڈ میں ہونے والی ترقیوں کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے پچھلے بورڈ میں ہونے والی ترقیوں کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے اور ایجنسیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر متعلقہ کمیٹی جاری سیاسی کشیدگی میں افسران کے طرز عمل کا جائزہ لے گی کہ آیا انہوں نے قانون کے مطابق کام کیا یا نہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب وفاق اور صوبے میں مخالف جماعتوں کی حکومت ہو تو صوبوں میں تعینات وفاقی سروسز کے افسران کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں اور وہ کس کے احکامات کے تابع ہوتے ہیں؟
اس حوالے سے سابق بیوروکریٹ ہاشم پوپلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جب کسی وفاقی سروس کے ملازم کی خدمات صوبے کے حوالے کر دی جاتی ہیں تو وہ روزمرہ کے معاملات میں صوبائی حکومت کے احکامات ماننے کا پابند ہوتا ہے کیونکہ اس کی تعینات صوبائی حکومت نے کی ہوتی ہے اور اس کی اے سی آر بھی صوبے میں ہی لکھی جا رہی ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر کسی جگہ پر ایسی نوبت آ جائے کہ وفاق اور صوبہ آمنے سامنے ہوں تو وہ قانون کی رو سے وفاق کے احکامات مانے گا اور تعیناتی بے شک صوبائی حکومت نے کی ہو اگر انضباطی کارروائی کی نوبت آ جائے تو وفاق ہی اس کے خلاف ایکشن لے گا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہی وجہ ہے جب موجودہ حکومت نے سی سی پی او لاہور کو معطل کیا اور وہ ہائی کورٹ گئے تو ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی اور انھیں متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا کیونکہ ہائی کورٹ جانتی ہے کہ قانون کے مطابق وفاق اپنے افسر کے خلاف ایکشن لے سکتا ہے۔‘
