وفاقی حکومت کے خلاف صوبوں کا احتجاج، ماضی میں مثال ملتی ہے؟
وفاقی حکومت کے خلاف صوبوں کا احتجاج، ماضی میں مثال ملتی ہے؟
بدھ 9 نومبر 2022 5:34
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پی ٹی آئی مظاہرین کو بظاہراً پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کی حکومت کے خلاف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومتوں کی سرپرستی میں احتجاج اور اس دوران اسلام آباد کا لاک ڈاؤن ملکی تاریخ میں ایک انوکھی مثال قائم کر رہا ہے۔
وفاقی حکومت اسلام آباد میں امن و عامہ کی صورت حال برقرار رکھنے میں تو کامیاب ہے تاہم راولپنڈی سمیت ملحقہ شہروں میں سڑکوں اور موٹر ویزے کو کھلوانے میں ناکام رہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں اور مظاہرین کو بظاہراً پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔
اس صورت حال میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں رہنے والے لوگ شدید مشکلات کا شکار ہیں اور وفاقی حکومت ان کی مدد کرنے میں بے بس نظر آتی ہے۔
منگل کو وفاقی وزارت داخلہ نے صوبوں میں امن و امان قائم کرنے اور راستے کھولنے کے حوالے سے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹریز کو خط لکھا ہے جس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے چھوٹے جتھوں نے موٹر ویز، ہائی ویز اور لنک روڈز بلاک کر رکھے ہیں۔
خط کے مطابق عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اور پولیس امن برقرار رکھنے اور راستے کھلوانے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مظاہرین نے عوام کی نقل و حرکت کو بند کر رکھا ہے جو آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں فوری طور پر احتجاج ختم کروائیں اور موٹر ویز سمیت دیگر راستے کھلوائیں۔
کیا ماضی میں صوبائی حکومتوں نے وفاق کے خلاف اس طرح احتجاج میں حصہ لیا؟
جس طرح کی صورت حال آج کل دکھائی دے رہی ہے، ماضی میں ایسی مثال کم ہی ملتی ہے کہ صوبائی حکومتیں اپنی سرپرستی میں وفاق کے خلاف اپنے صوبے کے اندر ہی احتجاج کروائیں اور سڑکوں اور راستوں کی بندش پر ایکشن نہ لیں۔
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی کیونکہ صوبائی حکومتوں کے زیر نگرانی ان کے اپنے عوام تکلیف کا شکار ہیں۔‘
’آئین کے تحت صوبائی حکومتیں اپنی حدود میں امن و عامہ کی خود ذمہ دار ہیں۔ صوبوں میں احتجاج کی تو مثالیں موجود ہیں جیسے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت میں پارٹی نے وفاقی حکومت کے خلاف جلسے وغیرہ کیے ہیں مگر ایسا احتجاج جس سے صوبے کے اپنے لوگوں کو ہی تکلیف ہو اس کی مثال نہیں ملتی۔‘
ان کے مطابق عوام کے جان و مال کا تحفظ ایک حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر جب حکومت خود ہی راستے وغیرہ بند کروا دے تو لوگوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔‘
ضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’احتجاج اور اظہار رائے کی آزادی ایک بینادی حق ہے تاہم نقل و حرکت و تجارت کی آزادی بھی ایک بنیادی حق ہے۔ ایک حق کی خاطر دوسرا حق مجروح نہیں کیا جا سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورت حال میں وفاقی حکومت کے اختیارات محدود ہیں اور پولیس اور انتظامیہ صوبائی حکومت کے ماتحت ہی ہوتی ہے۔‘
یاد رہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان (جن کے خلاف لاہور میں ایک بڑا احتجاج اتوار کو گورنر ہاؤس میں کیا گیا تھا) نے منگل کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’صوبے میں گورنر راج کا نفاذ نامکمن نہیں ہے۔‘
گورنر راج کے ذریعے وفاق براہ راست صوبائی حکومت کا نظام سنبھال سکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 32، 33 اور 34 میں گورنر راج کے حوالے سے وضاحت کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کسی صوبے میں ایمرجنسی کی صورت میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے جس کے بعد وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں کہ کسی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کا اثر ختم کرنے کے لیے گورنر راج نافذ کرے۔‘
نواز شریف حکومت کے خلاف 1993 میں صوبائی حکومتوں کا لانگ مارچ
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد احمد عارف کے مطابق ’ماضی میں صوبائی حکومتوں کے وفاق کے خلاف احتجاج کی مثال ملتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جولائی 1993 میں وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو پنجاب میں پیپلز پارٹی کے منظور وٹو اور صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں ان کے حامی میر افضل خان کی حکومت تھی۔ ان دونوں صوبائی حکومتوں نے پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو کے وفاق کے خلاف لانگ مارچ کے لیے بھرپور مدد کی تھی۔‘
ارشاد احمد کے مطابق ’کہا جاتا تھا کہ سرکاری خرچے پر مارچ کے لیے ڈنڈے سوٹے خریدے گئے، تاہم جس دن مارچ لاہور سے شروع ہونا تھا اسی دن بے نظیر بھٹو کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں راولپنڈی لے جایا گیا اور کہا گیا کہ آپ کو مارچ کے بغیر الیکشن مل جائیں گے۔‘
’چنانچہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے 18 جولائی 1993 کو وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کو استعفی دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ بعد میں اسے کاکڑ فارمولہ کہا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ نواز شریف کو جب جولائی 2017 میں سپریم کورٹ نے برطرف کیا تو انہوں نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کے نام سے اپنی حکومت کے دوران ہی جی ٹی روڈ سے مہم چلائی تھی۔