پاکستان میں آج تیسرا دن ہے جب وفاقی دارالحکومت کا عملی محاصرہ جاری ہے۔ اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستوں پر آمد و روفت بند ہے۔
تحریک انصاف نے موٹروے سمیت ایئرپورٹ کو جانے والے راستے بھی بند کر رکھے ہیں۔ سندھ سے آنے والی سپلائی چین کو روکنے کا دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے۔
یہ ایسی صورت حال جو مزید چند روز تک جاری رہنے کی وجہ سے نہ صرف اسلام آباد کے اندر اشیائے خورد و نوش بلکہ پٹرول سمیت کئی شعبوں میں بحران کا باعث بن سکتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
سندھ میں گورنر راج کے بغیر اب کوئی دوسرا حل نہیں: شیخ رشیدNode ID: 653591
-
گورنر راج کیا ہوتا ہے اور ماضی میں کب اور کس صوبے میں لگایا گیا؟Node ID: 653851
-
قتل کا منصوبہ پہلے ہی بے نقاب کر دیا تھا: عمران خانNode ID: 716271
اس احتجاج کے حوالے سے وفاقی حکومت کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ پولیس اور دیگر صوبائی ادارے مظاہرین کی معاونت کر رہے ہیں جو کہ آئینی خلاف ورزی ہے۔ اس سلسلے میں وفاق کی جانب سے صوبائی حکام کو خطوط بھی لکھے گئے ہیں، لیکن ان پر تاحال عمل نہیں کیا گیا۔
ایسے میں کچھ حلقوں کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ایمرجینسی یا گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات میں وفاقی حکومت کے پاس ایمرجینسی یا گورنر راج کے نفاذ کا جواز موجود ہے اور اس صورت میں جب صدر بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہوں تو ان پر عمل کرنا کتنا آسان ہوگا؟
کن حالات میں ایمرجینسی لگائی جا سکتی ہے؟
دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کی طرح، پاکستان میں وفاقی حکومت آئین کے تحت قانونی طور پر مجاز اور بااختیار ہے کہ ملک کو جنگ یا بیرونی جارحیت کے خطرے یا اندرونی خلفشار، جو صوبائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جائے، کی صورت ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرے۔
قانونی ماہر حافظ احسان کھوکھر ایڈووکیٹ کے مطابق پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 232، 233، 234، 235، 236 اور 237 اس حوالے سے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہ آرٹیکلز ایمرجنسی کے اعلان، اس پر عمل اور اس کے قانونی نتائج کے بارے میں آگاہی دیتے ہیں۔
ان کے مطابق ’18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کے مشورے پر صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کے اختیار کو نہ صرف انتہائی حد تک محدود اور کم کیا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ اور متعلقہ صوبائی اسمبلی کو بھی اس طرح کے نفاذ کو روکنے کے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آئین کے آرٹیکل 232 کے مطابق، اگر صدر اس بات سے مطمئن ہے کہ ایک سنگین ایمرجنسی موجود ہے جس میں پاکستان یا اس کے کسی بھی حصے کی سلامتی کو جنگ یا بیرونی جارحیت یا اندرونی خلفشار کی وجہ سے کسی صوبائی حکومت کے کنٹرول کے اختیار سے باہر کا خطرہ لاحق ہے۔ وہ ہنگامی صورتحال کا اعلان جاری کر سکتا ہے۔
’تاہم کسی صوبائی حکومت کے کنٹرول کرنے کے اختیارات سے باہر اندرونی خلفشار کی وجہ سے ہنگامی حالت کے نفاذ کے لیے صدر کی ایسی کارروائی سے پہلے اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کی قرارداد کی ضرورت اور لازمی ہوگی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اگر صدر صوبائی حکومت کے کسی حوالہ کے بغیر اپنے طور پر عمل کرتا ہے تو اس طرح کے ایمرجنسی کا اعلان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے دس دنوں کے اندر ہر ایوان کی منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔‘
آئین کا آرٹیکل 234 کسی صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں اعلان جاری کرنے کے اختیارات سے متعلق ہے۔
کسی صوبے کے گورنر کی طرف سے رپورٹ موصول ہونے پر صدر اگر مطمئن ہو کہ ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے جس میں حکومت آئین کی دفعات کے مطابق صوبے کا کام جاری نہیں رکھ سکتی۔ یا اگر اس سلسلے میں کوئی قرار داد متعلقہ ایوان سے منظور کی جاتی ہے تو وہ خود یا صوبے کے گورنر کو ہدایت دے گا کہ صوبے کی حکومت کے تمام یا کوئی بھی کام، اور تمام یا کوئی بھی اختیارات جو صوبائی اسمبلی کے علاوہ صوبے میں کسی بھی شخص یا اتھارٹی کے پاس ہیں استعمال کرنے کا مجاذ ہے۔
قانون ماہر حافظ احسان کھوکھر کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 234 کے تحت ایمرجینسی کا اعلان مشترکہ اجلاس میں پیش کرنا لازمی ہے۔ جس کی منظوری کی صورت میں ایمرجینسی دو ماہ کی مدت تک لگائی جا سکتی ہے۔
اور یہ کہ اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے اسے مشترکہ اجلاس کی قرارداد کے ذریعے مزید مدت کے لیے بڑھایا جائے جو ایک وقت میں دو ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتی، لیکن ایمرجنسی کا ایسا کوئی اعلان کسی بھی صورت میں چھ ماہ سے زیادہ نافذ نہیں رہے گا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جب ایمرجنسی کا اعلان نافذ ہو تو پارلیمنٹ قانون کے ذریعے قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال سے زیادہ کی توسیع کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے ایڈووکیٹ اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ ’اس وقت جو صورت حال ہے وہ آئین کے متعلقہ آرٹیکلز کے تحت ایمرجینسی یا گورنر راج کی متقاضی نہیں ہے، تاہم اگر یہ زیادہ دنوں تک جاری رہے تو پھر اس بارے میں ضرور غور کیا جائے گا کیونکہ ملک اس طرح کی صورت حال کا زیادہ دیر تک متحمل نہیں ہوسکتا۔‘

ایمرجینسی کے دوران وفاقی حکومت کے صوبوں میں اختیارات کیا ہوتے ہیں؟
آئین کے تحت جب ایمرجنسی نافذ ہو پارلیمنٹ کو کسی صوبے یا اس کے کسی بھی حصے کے لیے قانون بنانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ کسی ایسے معاملے کے حوالے سے جو وفاقی قانون سازی کی فہرست میں درج نہیں ہے ایسے قوانین کی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ شاہ خاور کے مطابق ’ایمرجینسی کے دوران وفاقی حکومت بنیادی حقوق معطل کر سکتی ہے اور صوبائی حکومتوں کو احکامات جاری کر سکتی ہے اور صوبائی اداروں اور معاملات کے حوالے سے آئینی دفعات کی کارروائی کو بھی معطل کر سکتی ہے، تاہم ایسے احکامات کی پارلیمنٹ سے منظوری لینا ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئین میں یہ بھی واضح طور پر درج ہے کہ وفاقی حکومت آئین کو موقوف نہیں کر سکتی اور نہ ہی اعلیٰ عدلیہ سے متعلق آئین کی دفعات کو معطل کر سکتی ہے۔‘
شاہ خاور ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ’ایمرجنسی کے اعلان سے متعلق تمام حالات میں اعلیٰ عدالتوں کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت عدالتی نظرثانی کے اختیارات حاصل ہوں گے اور ایمرجنسی کے اعلان کی درستگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہوگا اور نفاذ کے جواز کے بارے میں ان کا فیصلہ یا حتمی اعلامیہ پابند ہوگا۔‘
