اس مقصد کے لیے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا سے اجازت لینا ہوگی، تاہم جہاز کے کرائے کا تعین حکومت کرے گی۔
اس مجوزہ ترمیمی بل میں ایک اور ترمیم شامل کی گئی ہے جس کی منظوری کے بعد یکم نومبر 2008 سے اب تک سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال قانونی ہوجائے گا اور اس حوالے سے کوئی سوال نہیں کرسکے گا۔
صوبائی وزیر برائے محنت شوکت یوسف زئی نے ترمیمی بل سے متعلق موقف اپنایا کہ سرکاری ہیلی کاپٹر وزیراعلٰی اور وزرا اہم امور کے لیے استعمال کرتے ہیں جس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔
’حال ہی میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا گیا اور متاثرین کی امداد کی گئی، ہم نے کبھی ناشتہ منگوانے کے لیے ہیلی کا استعمال نہیں کیا۔‘
شوکت یوسف زئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ’2008 سے ہیلی کاپٹر کا استعمال ہوا لیکن اس وقت ہماری حکومت نہیں تھی ہم تو 2013 میں اقتدار میں آئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ بل کابینہ سے منظور ہوچکا ہے تاہم ایوان میں پیش ہونا باقی ہے، جب یہ بل منظور ہوگا تب اس پر مزید بات کریں گے۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے ایم پی اے اختیار ولی نے اس مجوزہ بل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’حکومت نے ہیلی کاپٹر کو رکشہ بنایا ہوا ہے، عوام کے پیسوں پر عمران خان سرکاری ہیلی کا استعمال کرتے آئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس بل کے ذریعے ہیلی کاپٹر کے غیر قانونی استعمال کو قانونی راستہ دیا جا رہا ہے تا کہ اس کے خلاف کوئی انکوائری نہ کی جا سکے۔‘
واضح رہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کی ہدایت پر نیب نے ہیلی کاپٹر کے مفت استعمال سے متعلق تفصیلات جمع کی تھیں۔
ان تفصیلات کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے 137 مرتبہ سرکاری ہیلی کاپٹر پر سفر کیا تھا۔
عمران خان کے سفر پر سرکاری ریٹ کے مطابق 5 کروڑ 55 لاکھ 67 ہزار روپے اور کمرشل ریٹ کے مطابق 6 کروڑ 39 لاکھ 2 ہزار روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا۔
نیب کی ایک فہرست کے مطابق عمران خان سمیت 1800 افراد نے ہیلی کاپٹر استعمال کیا تھا۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے سال 2019 میں ہیلی کاپٹر کیس میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف نیب نے تحقیقات بند کردی تھیں۔