Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اورنج لائن ٹرین سے ٹکرانے والا چینی ساخت کا ’ڈرون‘ لاہور میں کیسے پہنچا؟

پاکستان کے ڈرون قوانین کے مطابق یہ ڈرون طیارہ کلاس تھری کیٹیگری میں آتا ہے (فوٹو: لاہور پولیس)
چند روز قبل لاہور کے ٹھوکر نیاز بیگ کے علاقے میں ایک ڈرون اورنج لائن ٹرین کے پل سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا۔ ڈرون کے گرنے سے کوئی نقصان تو نہیں تاہم اس کی بلا اجازت نامہ لاہور میں موجودگی اور اڑائے جانے پر کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
پولیس نے نہ صرف اس ڈرون کی باقیات کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے بلکہ اس کا مالک بھی حراست میں ہے۔ اور اس بات کی چھان بین کی جا رہی ہے کہ یہ ڈرون لاہور میں کیسے پہنچا۔
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق یہ ڈرون ایک چینی کمپنی کا تیار کردہ ہے اور اس کا آفیشل نام ’ینگڈا سکائی وہیل‘ ہے۔ اس جدید ترین ڈرون کی قیمت اس کو بنانے والی کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق تقریبا 18 ہزار امریکی ڈالر ہے۔ جو تقریبا 40 لاکھ پاکستانی روپے بنتی ہے۔
ڈرون بنانے والی ایک پاکستانی کمپنی ڈبل اے روبوٹکس کے چیف ایگزیکٹیو محمد عبداللہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یگنڈا سکائی وہیل‘ نامی یہ مشین ایک انتہائی طاقتور ڈرون ہے جو ڈیڑھ گھنٹے تک فضا میں رہنے کی استعداد رکھتی ہے۔ جو بات سب سے اہم ہے اور اس کی پے لوڈ لے جانے کی صلاحیت ہے۔ یہ ڈرون ایک وقت میں 10 کلوگرام کے قریب وزن اٹھا سکتا ہے۔ اور فضا سے گرا بھی سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ ڈرون سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑنے کے علاوہ خودکار طریقے سے لینڈ بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کو اڑانے کے لیے کسی ہوا بازی کے ماہر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا اپنا وزن بھی 30 کلوگرام سے زیادہ ہے۔
پولیس اس ڈرون سے متعلق مزید معلومات فراہم نہیں کر رہی ہے۔ جبکہ اس کے مالک سے متعلق بھی کچھ زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
ترجمان لاہور پولیس کے مطابق ’اس معاملے کو مختلف ادارے دیکھ رہے ہیں۔ پولیس صرف یہی تصدیق کر سکتی ہے۔ اس کی ساخت اور اس کی موجودگی کے دیگر پہلوؤں پر تفتیش ابھی جاری ہے اور مزید معلومات میڈیا کے ساتھ شیئر نہیں کی جا سکتیں۔‘

اورنج لائن ٹرین کے پل سے ٹکرانے واالا ڈرون ایک چینی کمپنی کا تیار کردہ ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

پاکستان کے ڈرون قوانین کے مطابق یہ ڈرون طیارہ کلاس تھری کیٹیگری میں آتا ہے۔ کلاس تھری میں ایسے ڈرون آتے ہیں جن کا وزن دو سے 50 کلوگرام کے درمیان ہوتا ہے۔ اور اس کو رکھنے کے لیے سول ایویشن اتھارٹی سے باقاعدہ این او سی لینا پڑتا ہے۔
لاہور میں تباہ ہونے والے ڈرون کی تفتیشی ٹیم کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک کی تفتیش میں بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ اس شخص نے محض کھیل کے لیے یہ ڈرون درآمد کیا ہے۔ لیکن یہ بات باعث تشویش ہے کہ این او سی کے بغیر یہ کسٹم کو چکمہ دے کر لاہور کیسے پہنچا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آج کل کھلونا جہاز رکھنے کا شوق بہت مقبول ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے لاہور میں ایک سوسائٹی بھی بنی ہوئی ہے جس میں مختلف طالب علم کھلونا جہاز بنا کر ان کو اڑاتے ہیں، لیکن اس سوسائٹی نے ایک جگہ مختص کی ہوئی ہے جہاں وہ اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔‘

ڈبل اے روبوٹکس کے مطابق ’یگنڈا سکائی وہیل‘ نامی مشین ڈیڑھ گھنٹے تک فضا میں رہنے کی استعداد رکھتی ہے۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

تفتیشی افسر نے مزید بتایا کہ اس کیس کے بعد کافی حقائق سامنے آئے ہیں اور ملک میں موجود ڈرون پالیسی ان تمام جزئیات کا احاطہ نہیں کرتی جو  ریگولیشنز کے لیے ضروری ہیں۔
’مثلا ڈرون کے وزن کے لحاظ سے تو قوانین بنائے گئے ہیں، لیکن کھلونا جہاز اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے کسی بھی طرح کی شرائط دستیاب نہیں ہیں۔‘
کھلونا ڈرون کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے مہنگے اور جدید ڈرون خرید رہے ہیں۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق اس وقت لاہور شہر میں سو سے زائد کھلونا جہاز موجود ہیں جو لوگوں نے محض کھیل اور شغل کے لیے رکھے ہوئے ہیں۔

شیئر: