پاکستان سٹاک ایکسچینج میں معمولی بہتری، ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ برقرار
پاکستان سٹاک ایکسچینج میں معمولی بہتری، ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ برقرار
جمعہ 25 نومبر 2022 13:56
زین علی -اردو نیوز، کراچی
اوپن مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 224 روپے ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
کراچی کے رہائشی محمد اویس کے مطابق انہیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ دسمبر کے آخر میں ملک سے باہر جانے کے لیے ڈالر خریدنے ہیں لیکن شہر کے بیشتر منی چینجر کا کہنا ہے کہ اس وقت ان کے پاس ڈالر موجود نہیں ہیں۔
محمد اویس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت مارکیٹ میں ایسے افراد موجود ہیں جو خود کو بروکر کہہ رہے ہیں اور وہ ایک ڈالر کی قیمت 255 روپے مانگ رہے ہیں جو سٹیٹ بینک کے جاری کردہ ریٹ کے مقابلے میں تقریباً 24 روپے فی ڈالر زیادہ ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ ریٹ کے مطابق کاروباری ہفتے کے آخری روز جمعے کو انٹر بینک میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 224 روپے ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 231 روپے کا ایک ڈالر ہے۔
لیکن اس وقت مارکیٹ میں اس ریٹ پر ڈالر میسر نہیں ہیں۔ چھوٹے بڑے منی چینجر ڈالر کی فروخت کو محدود کر کے صرف خریداری پر توجہ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں اہم عہدوں پر تعیناتی کے معاملات حل ہونے کے بعد بھی سرمایہ کار محتاط نظر آرہے ہیں۔
کاروباری ہفتے کے آخری روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کوئی خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا جبکہ کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دباؤ برقرار ہے۔
معاشی ماہرین نے امید کا اظہار کیا ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر بحال ہوگا اور ڈالر کا بڑھتا دباؤ بھی کم ہوگا۔ تاہم زمینی حقائق کچھ اور ہی منظر پیش کر رہے ہیں۔
فاریکس ڈیلرز ایسو سی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ظفر پراچہ نے بتایا کہ مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہے۔ سفر کرنے والوں کے لیے ڈالر موجود ہیں جو 228 میں خرید رہے ہیں اور 231 میں فروخت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈالر ہم سے خرید کر لوگ گرے مارکیٹ میں بھیج رہے ہیں۔ اس وقت گرے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 245 سے 250 روپے چل رہی ہے۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق ’موجودہ صورتحال میں حکومت کو غیر قانونی کام کرنے والوں کے خلاف ناصرف کارروائی تیز کرنی ہوگی بلکہ سملنگ کے راستے بھی بند کرنے ہوں گے۔‘
ملک میں ڈالر کی قانونی اور غیر قانونی کتنی مارکیٹیں کام کر رہی ہیں؟
ظفر پراچہ کے مطابق کراچی اور پشاور میں ڈالر کا ریٹ مختلف ہے اسی طرح قانونی طور پر تو انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خرید و فرخت ہوتی ہے، لیکن ملک میں اس وقت اس سے ہٹ کر کام ہو رہا ہے۔
’انٹر بینک اور اپن مارکیٹ کے مقابلے میں گرے مارکیٹ ابھر کر سامنے آگئی ہے۔ 231 روپے میں فروخت کیا ڈالر گرے مارکیٹ میں 245 روپے میں باآسانی فروخت ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان سے سمگل ہونے والے سامان کی مد میں ڈالر باہر جا رہے ہیں، اس لیے پشاور کی مارکیٹ کا ریٹ کراچی سے اوپر ہے۔‘
پاکستان میں قانونی طریقے سے رقم کی منتقلی کی وجہ، سخت پالیسی یا حوالہ ہنڈی؟
مرکزی بینک کے 11 نومبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اکتوبر کے ماہ میں ترسیلات زر میں 9.1 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اکتوبر 2022 میں سب سے زیادہ ترسیلات زر سعودی عرب سے پاکستان بھیجی گئیں جو 570.5 ملین ڈالر تھے۔ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارت سے ترسیلات زر بھیجے گئے جو 427 ملین ڈالرز تھے۔ اس کے علاوہ برطانیہ سے 278.8 ملین ڈالر اور امریکہ سے 253.1 ملین ڈالر بھیجے گئے۔
ظفر پراچہ کے مطابق ’حوالہ ہنڈی کا کاروبار اس وقت عروج پر ہے، بہتر ریٹ ہونے کی وجہ سے بیرون ممالک سے قانونی طریقے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طریقے سے بھی رقم کی منتقلی ہو رہی ہے۔‘
’ڈالر کی طلب و رسد میں نمایاں فرق کی وجہ سے گرے مارکیٹ میں نئے کام کرنے والے بہت آگئے ہیں، قانون نافذ کرنے والے بلکل کام کر رہے ہیں لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔ ڈیمانڈ سپلائی کا فرق ہے تو لوگ اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘
24 نومبر 2022 کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 134 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس وقت مرکزی بینک کے ذخائر 7 ارب 82 کروڑ جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 5 ارب 81 کروڑ ڈالر ہیں، جبکہ ملک کے مجموعی ذخائر 13 ارب 64 کروڑ ڈالر ہیں۔
ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ کرنے کی خبریں درست نہیں ہیں، اب سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ صورتحال بہتری کی طرف بڑھے گی اور نئے آنے والے آرمی چیف بھی اپنا مثبت کردار ادا کریں گے جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔
معاشی ماہر سمیع اللہ طارق کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی معیشت کے لیے حالات اچھے نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگوں کے ساتھ ساتھ ملکی نظام کو چلانا اتحادی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنچ ہے۔
’پاکستان میں ٹیکس کلیکشن میں کمی، اخراجات میں اضافہ، ترسیلات زر میں کمی اور ایکسپورٹ کے اہداف کا پورا نہ ہونا اچھی علامات نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کو معیشت کی بہتری کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ناصرف روپے کی سطح کو مستحکم کیا جاسکے بلکہ ایکسپورٹ میں بھی اضافہ کیا ہو۔
دوسری جانب کاروباری ہفتے کے اختتام پر پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروباری حصے کے پہلے سیشن میں 100 انڈیکس میں محض 53 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔