گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان انسانی سمگلنگ کا نہ صرف ذریعہ ہے بلکہ ایک اہم گزر گاہ بھی ہے۔
افغانستان اور کئی دیگر ممالک سے یورپ اور بیرونی دنیا کے لیے غیر قانونی سفر کرنے والے بہت سے لوگ پاکستان سے گزر کر جاتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک بڑی تعداد پاکستان کی غیر قانونی جعلی دستاویزات بنوا کر مشرق وسطٰی اور یورپ جاتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کی افغانستان سے ہونے والی ’دہشت گردی‘ کی مذمتNode ID: 661946
پاکستانی اداروں پر اس عمل کی سنگینی کا انکشاف اس وقت ہوا جب کچھ سال پہلے مغربی ممالک اور مشرق وسطٰی میں تارکین وطن کے خلاف پابندیاں سخت ہوئیں اور انہوں نے غیر قانونی تارکین کو ان کے ممالک بھجوانا شروع کر دیا۔
جب پاکستانی تارکین وطن کے جہازوں کے جہاز بھر کر آئے اور پاکستانی حکام نے واپس آنے والے افراد کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی تو معلوم ہوا کہ ان میں بیشتر پاکستانی نہیں بلکہ افغان باشندے ہیں۔
اس کے بعد پاکستانی اداروں نے غیر ملکیوں کو جاری کیے جانے والے شناختی کارڈوں پر کنٹرول سخت کرنا شروع کیا اور جعلی دستاویزات کی تیاری کے خلاف نگرانی میں بھی اضافہ ہوا۔
لیکن اس کے باوجود اب بھی پاکستان میں جعلی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تیاری اور ان پر لوگوں کو باہر بھجوانے کا سلسلہ جاری ہے۔
جعلی شناختی دستاویزات کی تیاری کا نظام ملک میں ایک مربوط طریقے سے کام کرتا ہے۔

پاکستان کی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے حکام کے مطابق یوں تو تقریباً تمام بڑے شہروں میں کوئی نہ کوئی ایجنٹ اس طرح کی سرگرمی میں ملوث پایا جاتا ہے لیکن اس کا ایک بڑا گڑھ خیبر پختونخوا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبرپختونخوا میں 11 لاکھ 41 ہزار افغان مہاجرین مقیم ہیں جو پورے ملک میں افغان مہاجرین کا 59 فیصد بنتا ہے۔
افغان کمشنریٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 8 لاکھ 34 ہزار381 افغان مہاجرین کے پاس پروف آف رجسٹریشن (پاکستان میں بطور افغان مہاجر رجسٹریشن) کارڈ موجود ہے جبکہ 3 لاکھ 7 ہزار 647 مہاجرین افغان سٹیزن کارڈ یعنی افغان شہری کا کارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
صوبے میں مختلف مقامات پر افغان مہاجرین کے لیے 43 کیمپس قائم ہیں مگر زیادہ تر افغان باشندے شہری علاقوں کی طرف منتقل ہوچکے ہیں اور کرائے کے مکانات میں رہائش پذیر ہیں۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین بیرون ملک سفر میں مشکلات کی وجہ سے پاکستان کا جعلی پاسپورٹ بنوا کر جاتے ہیں۔
یہ پاسپورٹ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر بنائے جاتے ہیں جس کے ذریعے مہاجرین بالخصوص نوجوان خلیجی ممالک، یورپ اور دیگر ممالک سفر کرتے ہیں۔
ایف آئی اے کے ایک ذمہ دار افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستانی ایجنٹ 8 سے 10 لاکھ روپے کے عوض افغان مہاجرین کو جعلی پاسپورٹ بنا کر دیتے ہیں۔

پاسپورٹ میں ٹیمپرنگ
قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے جعل سازوں نے اب پاسپورٹ پر ٹیمپرنگ بھی شروع کر دی ہے یعنی پاسپورٹ پر معلومات ٹھیک درج ہوتی ہیں صرف تصویر بدل کر اس پر جعلی مہر لگائی جاتی ہے۔
ایف آئی اے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ رواں سال اکتوبر کے مہینے میں پشاور سے 23 افغان مہاجرین گرفتار کیے گئے جن سے جعلی دستاویزات برآمد ہوئیں۔ اسی کارروائی کے دوران 3 ایجنٹ بھی گرفتار ہوئے جو ان مہاجرین کو سہولت فراہم کرنے کے لیے جعلی دستاویزات تیار کروا کے دے رہے تھے۔
ان ایجنٹوں اور جعلی دستاویزات تیار کروانے کے خواہش مند افراد کی نشاندہی پر 15 ٹریول ایجنسیوں کے مالکان کو بھی گرفتار کیا گیا جو جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کروانے اور ان پر افغان مہاجرین کو بیرون ملک بھجواتے تھے۔ ایف آئی حکام کے مطابق ملزمان سے جعلی پاسپورٹ بھی برآمد کیے گئے ہیں، جن کی تیاری میں وہ فی پاسپورٹ 8 سے 10 لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔
جعلی پاسپورٹ کے کاروبار کی مارکیٹ
ضلع خیبر میں طورخم بارڈر ہونے کی وجہ سے جعلی پاسپورٹ کا کاروبار کرنے والوں کا پورا نیٹ ورک موجود ہے۔
اس نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے لنڈی کوتل پولیس نے 2 نومبر کو ایک آپریشن کیا جس کے دوران جعلی پاسپورٹ اور ویزے تیار کرنے والے گروہ کا اہم کارندہ پکڑ لیا گیا۔
لنڈی کوتل پولیس کے ایس ایچ او اکبر آفریدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ نیٹ ورک پاک افغان سرحد پر قائم ایک گودام سے کام کر رہا تھا۔ اس گودام پر چھاپہ مارا گیا تو ملزم حضرت عمر کے قبضے سے 15 افغانی پاسپورٹ، 3 پاکستانی پاسپورٹ اور 16 افغانی سٹیکر برآمد ہوئے۔
اسی کارروائی میں افغان شہریوں کے 15 سٹیزن کارڈ، 2 قومی شناختی کارڈ اور 31 آن لائن ویزے اور امیگریشن آفیسر کی جعلی مہر بھی برآمد ہوئی۔
پولیس کے مطابق ملزم جعلی سٹیمپ اور سٹیکر کی مدد سے ویزے بھی بنواتے تھے۔
