وائٹ ہاؤس کی ترجمان کرین جین نے ایلون مسک کو جواب یتے ہوئے کہا کہ ’یہ ذاتی نوعیت کے جو حملے دکھائی دے رہے ہیں، یقیناً خطرناک ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ (طرزعمل) سخت ناگوار اور حقیقت سے دور ہے۔‘
ایلون مسک نے اتوار کو انتھونی فوسی کو سزا دیے جانے پر زور دیا تھا۔
انتھونی فوسی وہی ہیں جنہوں نے سنہ 2020 کے آغاز میں کورونا کی لہر سامنے آنے کے بعد حکومت کی پالیسی مرتب کی تھی اور اس کو آگے بڑھایا تھا۔
ٹویٹ میں مسک کا کہنا تھا کہ ’میں کہتا ہوں کہ فوسی پر مقدمہ چلایا جائے۔‘
مسک نے ایک میم بھی پوسٹ کی جس میں فوسی اور وبا کے دنوں میں حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر تنقید کی گئی تھی۔
اس میں فوسی صدر جو بائیڈن سے کہہ رہے ہیں کہ ’صرف ایک لاک ڈاؤن اور۔‘
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر قدامت پسندوں نے بھی انتھونی فوسی پر شدید تنقید کی جبکہ ان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں، جس کے بعد ان کو حفاظت کے لیے سکیورٹی فراہم کر دی گئی ہے۔
کرین جین کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر انتھونی فوسی اور شعبہ صحت سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد پر ہونے والے ذاتی حملے خطرناک ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ڈاکٹر فوسی نے سات صدور کے ساتھ کام کیا جن کا تعلق ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس دونوں سے تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کے ایچ آئی وی ایڈز اور کورونا کے حوالے سے کام کی بدولت بے شمار زندگیاں بچائی گئیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم خوش قسمت ہیں کہ انہوں (ڈاکٹر فوسی) نے اپنی زندگی اور صلاحیتوں کو امریکہ کے لیے وقف کیا ہے۔‘
ریپلکنز کے قانون سازوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ وہ ڈاکٹر فوسی کے خلاف اس وقت اقدامات کریں گے جب وہ جنوری میں ایوان نمائندگان کا کنٹرول سنبھالیں گے۔
ریپبلکنز اس سے قبل بھی ویکسین کی تیاری، ماسک کے استعمال اور وبائی امراض کے حوالے سے دیگر معاملات پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
81 سالہ ڈاکٹر فوسی نے رواں بائیڈن انتظامیہ کے چیف میڈیکل ایڈوائزر اور نیشنل انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر کے عہدوں سے استعفٰی دیا ہے۔ جہاں وہ 1984 سے خدمات انجام دے رہے تھے۔