پاکستان کی جانب سے سرچارج ختم کرنے پر آئی ایم ایف میں تقسیم
کیون گالاگھر نے کہا کہ ’بنیادی طور پر خراب کاروباری ماڈل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ نے کم اور درمیانے درجے کی آمدن رکھنے والے ممالک جو بڑے پیمانے پر قرض لیتے ہیں اور جلد واپس نہیں کرتے ہیں، سے سرچارجز حاصل کرنے کے حوالے سے میٹنگ کی۔ تاہم اس حوالے سے بورڈ میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان اور ارجنٹائن آئی ایم ایف پر زور دے رہے ہیں کہ وہ یا تو سرچارجز ختم کر دے یا اسے وقتی طور پر معاف کر دے۔ آئی ایم ایف کے اندازے کے مطابق متاثرہ ممالک کو کورونا وائرس کی وبا شروع ہونے سے لے کر 2022 کے آخر تک سُود اور فیس کی مد میں چار ارب ڈالر دینا پڑیں گے۔
امریکہ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کو ایسے وقت پر اپنا فنانشل ماڈل تبدیل نہیں کرنا چاہیے جب عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔
آئی ایم ایف کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’بورڈ اپنے ریگولر جائزے میں پالیسی میں ممکنہ تبدیلی پر متفق نہیں ہو سکا۔‘
’سرچارج پالیسی کے حوالے سے رائے میں اختلاف رہا جس میں سرچارج کو وقتی طور معاف کرنا بھی شامل تھا۔‘
آئی ایم ایف کی جانب سے اس حوالے کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں، لیکن کہا گیا کہ آئندہ کچھ روز میں سٹاف پیپر اور پریس ریلیز جاری کی جائے گی جس میں بورڈ میٹنگ کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں گی۔
امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی میں گلوبل ڈیویلپمنٹ پالیسی سینٹر کے سربراہ کیون گالاگھر نے کہا کہ ’عالمی معاشی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے بڑے شیئر ہولڈرز کو اپنی رائے میں تبدیلی کرنی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف ضرورت مند ممالک سے منافع کما رہی ہے اور بنیادی طور پر خراب اس کاروباری ماڈل کو ٹھیک کرنے کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔‘
’لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف کے شیئر ہولڈرز نے جائزے کو سرے سے رد نہیں کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’تسلی بخش بات یہ ہے کہ بڑے شیئر ہولڈرز میں تجویز کو ختم کرنے کی سکت نہیں ہے۔‘