Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی گاڑی استعمال کرنے پر گھریلو ملازم جبری ریٹائر

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملازم نے تسلیم کیا کہ 25 فروری آدھی رات کو جج کی گاڑی بغیر اجازت استعمال کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے ہی ملازم کے خلاف محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے بغیر اجازت جج کی گاڑی استعمال کرنے پر جج کے گھریلو ملازم کو جبری ریٹائر کرنے کا حکم دیا ہے۔
ملازم اسحاق نے رجسٹرار کے جبری ریٹائر کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس پر ایڈمن جج جسٹس محسن اختر کیانی نے ملازم کی محکمانہ کارروائی کے خلاف اپیل خارج کر دی۔
 ہائی کورٹ کا سابق ملازم جسٹس ثمن رفعت امتیاز کے گھر میں بطور ویٹر کام کر رہا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملازم نے تسلیم کیا کہ 25 فروری آدھی رات کو جج کی گاڑی بغیر اجازت استعمال کی اور اس نے گاڑی 110 کلومیٹر تک لے جانے کے پیچھے حساسیت کو محسوس نہیں کی۔
ایڈمن جج کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جج کے گھر کے ویٹر کو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔
’ملازم کی اس حرکت سے متوقع خطرناک نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
ملازم اسحاق نے اپنی اپیل میں موقف اختیار کیا تھا کہ جج صاحبہ کے گھر ڈیوٹی کرتا تھا اوروہ ڈرائیور نہیں ویٹر ہیں۔
’میری بیٹی ایک رات سخت بیمار ہوگئی تھی جس کے باعث میں جج صاحبہ کی گاڑی لے کر چلا گیا۔ یہ میری غلطی تھی جس کو میں نے تسلیم کیا، مجھے معاف کیا جائے۔‘
ملازم نے اپنی اپیل میں درخواست کی کہ میں اپنی بیٹی کی خاطر پریشانی میں یہ غلطی کر بیٹھا مجھے نوکری سے نہ نکالا جائے اور معاف کیا جائے۔
ایڈمن جج نے رجسٹرار ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ملازم کی اپیل خارج کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق ملازم نے پہلے بھی کئی بار ڈسپلن کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ رجسٹرار نے ملازم کو جبری ریٹائر کرکے پنشن دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کے خلاف یہ الزام ثابت ہو کہ وہ جج کی گاڑی 110 کلومیٹر استعمال کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
اس حوالے سے جاری شوکاز نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ملازم نے آدھی رات کو بغیر اجازت ڈیوٹی کی جگہ چھوڑی اور اس نے پولیس اہلکاروں کو غلط بتایا کہ جج کی ہدایت پر گاڑی لے کر جا رہا ہوں۔

شیئر: