Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آڑینجی میں ڈاکٹر نہ گاڑی، ’بیمار بھائی کو 30 کلومیٹر کندھوں پر اٹھایا‘

آڑینجی کے مکین حکومت سے بنیادی سہولیات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)
بیمار بھائی کو گاؤں کے لوگوں کی مدد سے کندھوں پر اٹھا کر آٹھ گھنٹوں تک پہاڑوں میں پیدل چلتے رہے اور اس کے بعد ایسے مقام تک پہنچے جہاں سے آگے گاڑی کے ذریعے سفر ممکن ہے۔ ہسپتال پہنچتے پہنچتے دو دن لگ گئے۔‘
یہ کہنا ہے خضدار کی تحصیل وڈھ کے علاقے آڑینجی کے رہائشی عبدالحئی کا جنہیں اپنے 40 سالہ بیمار بھائی کو ہسپتال تک پہنچانے کے لیے 30 کلومیٹر تک کندھوں پر اٹھانا پڑا۔
عبدالحئی خوش قسمت تھے کہ اپنے بیمار بھائی کو دور دراز گاؤں سے ضلعی ہیڈ کوارٹر خضدار کے ہسپتال تک پہنچانے  میں کامیاب ہو گئے، لیکن ان کے گاؤں کنڈی میں مریضوں کے لیے دشوار گزار پتھریلے اور غیر ہموار راستے کا سفر اکثر ’موت کے سفر‘ میں بدل جاتا ہے۔
وسطی بلوچستان کے ضلع خضدار سے تقریباً 150 کلومیٹر دور کنڈی وڈھ کی سَب تحصیل آڑینجی 55 آبادیوں میں سے ایک ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق آڑینجی کی مجموعی آبادی 42 ہزار ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق خضدار اور لسبیلہ کے درمیان واقع اس علاقے کے مکین صحت، تعلیم، بجلی، گیس اور سڑکوں سمیت بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے پتھر کے زمانے میں رہ ہے ہیں۔
خضدار کے سابق ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر سومر بلوچ کا کہنا ہے کہ ’100 کلومیٹر سے بھی وسیع فاصلے پر پھیلے اس علاقے میں صرف ایک بنیادی مرکز صحت ہے لیکن اس میں بھی ڈاکٹر اور بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔ سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے اس دشوار گزار علاقہ  تک رسائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پہاڑوں میں گھرے بیشتر آبادیوں تک پکی تو دور کچی سڑک بھی نہیں جاتی۔ یہاں کے لوگوں کی سواری اونٹ اور گدھے ہیں، ایسے میں جب کوئی شخص بیمار ہوجائے تو انہیں گاؤں سے شہر کے ہسپتال پہنچانے کے لیے میت کی طرح کندھوں پر اٹھا کر چلنا پڑتا ہے۔

محمد اقبال اس وقت خضدار کے جھالاوان گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

آڑینجی کے گاؤں کنڈی کے رہائشی عبدالحئی کو بھی اپنے بیمار بھائی کو ہسپتال تک پہنچانے کے لیے ایسا ہی کرنا پڑا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی محمد اقبال بہت عرصے سے بیمار رہنے لگے ہیں۔
’دو روز قبل بخار تیز ہونے کی وجہ سے ان کی حالت بگڑ گئی تو ہم نے انہیں ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا اور تب ہی ہمارا امتحان شروع ہوگیا۔ی وں تو خضدار ہمارے گاؤں سے صرف 150 کلومیٹر دور ہے لیکن یہ فاصلہ ہمیں گھنٹوں میں نہیں دنوں میں طے کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کنڈی سے کچی سڑک 25 سے 30 کلومیٹر دور آواک گاؤں سے جبکہ پکی شاہراہ 100 کلومیٹر دور وڈھ  سے شروع ہوتی ہے۔ گاؤں سے کچی سڑک تک پہنچنے کے لیے پیدل چلنا پڑتا ہے یا پھر گدھوں اور اونٹوں کا استعمال کرتے ہیں۔
عبدالحئی نے بتایا کہ ’عموماً چار پانچ گھنٹوں میں آواک گاؤں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے پک اپ گاڑی کے ذریعے وڈھ تک پہنچنے میں مزید سات آٹھ گھنٹے لگ جاتے ہیں لیکن بیمار شخص کو کندھوں پر اٹھا کر چلنا آسان نہیں ہوتا اس لیے ہمیں پورا ایک دن صرف دوسرے گاؤں تک پہنچنے میں لگ گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہاڑوں کے درمیان پتھریلے، اونیچے نیچے غیر ہموار راستوں پر تھکن کی وجہ سے ان کی حالت بھی بری ہوگئی۔
’ہم شام چار سے پانچ بجے کے درمیان آواک گاؤں پہنچیں جہاں ایک رشتہ دار کے گھر رات گزاری۔ اگلی صبح ہم نے مریض کو پک اپ گاڑی میں ڈال کر خضدار کی طرف سفر شروع کیا اور رات کو ہسپتال پہنچے۔‘
عبدالحئی کے مطابق گاؤں میں کوئی بیمار ہوجائے یا پھر زچگی کے دوران  کسی خاتون کی حالت خراب ہوجائے تو اسے بروقت ہسپتال پہنچانے کا بندوبست کرنا بڑا امتحان بن جاتا ہے اکثر مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

آڑینجی کے مکین سواری کے لیے اونٹوں اور گدھوں کا استعمال کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 کے مطابق صحت کے سہولیات کی کمی اور ہسپتالوں تک رسائی میں مشکلات کے سبب پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
محمد اقبال اس وقت خضدار کے جھالاوان گورنمنٹ ٹیچنگ ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عبدالواحد رونجھو نے بتایا کہ مریض کی بیماری کا اب تک تشخیص نہیں ہو سکی ہے۔ ان کی بخار، پیٹ درد اور ڈائریا کی ہسٹری رہی ہے، ہم نے ان کے ٹیسٹ کرا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دراز اور دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے مریضوں کا تشخیص کے بغیر علامتی علاج کیا جاتا ہے اور جب انہیں کسی بڑے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے تو ان میں سے بیشتر کی حالت پہلے سے کافی بگڑ چکی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دیہی علاقوں سے زیادہ تر مریض یرقان کے آرہے ہیں جس کی بڑی وجہ آلودہ پانی، آلودہ سرنج اور آلات کا استعمال ہوتا ہے۔

’جدید دور میں بھی لوگ پتھر کے زمانے کی سواری استعمال کرتے ہیں

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ وسیع رقبے اور منتشر آبادی کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں تک تعلیم، صحت، سڑکوں اور بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
2017ء کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق سَب تحصیل آڑینجی میں فی مربع کلومیٹرعلاقے میں اوسطاً پانچ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں مجموعی طور پر 55 آبادیاں ہیں۔ ان میں سے 34 گاؤں کی آبادی 200 یا 200 سے بھی کم نفوش پر مشتمل ہے۔ یہاں تعلیم کی شرح پورے خضدار میں سب سے کم صرف 12 فیصد ہے۔
یہ علاقہ سابق وزیراعلٰی اور بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے آبائی علاقے وڈھ کا حصہ ہے اور وہ یہاں سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں صاف پانی کا حصول بھی ایک محنت طلب کام ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آڑینجی تحریک کے رہنما حافظ امین اللہ الحسنی کہتے ہیں کہ خضدار سے تین امیدوار وزیراعلٰی اور ایک نگراں وزیراعلٰی کے عہدے تک پہنچے لیکن اب بھی یہ ضلع پسماندگی کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب تحصیل آڑینجی میں نہ سڑک ہے نہ سکول نہ ہسپتال اورنہ بجلی۔ علاقے کے مکینوں کو آڑینجی سے تحصیل ہیڈ کوارٹر وڈھ جانے میں دو دو، تین تین دن لگتے ہیں۔ اس جدید دور میں بھی لوگ پتھر کے زمانے کی سواری استعمال کرتے ہیں۔
آڑینجی کے ایک اوررہائشی عبدالودود نے بتایا کہ آڑینجی میں لوگ ندی نالوں اور تالابوں میں بارش کا جمع پانی پیتے ہیں۔ سکول 30 کلومیٹر دور ہے اس لیے ہمارے بچے سکول نہیں جاتے۔ بنیادی مرکز صحت میں بھی صرف لیڈی ہیلتھ ورکر اور میڈیکل ٹیکنیشن تعینات ہے اور کوئی ڈاکٹر موجود نہیں۔ وہ صرف چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج کرسکتے ہیں۔
عبدالحئی نے بتایا کہ 50 سے 60 خاندانوں پر مشتمل کنڈی کی آبادی کا مکمل انحصار  گلہ بانی پر ہے۔ سارے لوگ چرواہے ہیں اور سال بھر بھیڑ بکریاں پال کر پھر شہر میں راشن کے بدلے فروخت کر دیتے ہیں۔
بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باوجود دور دراز علاقے میں رہنے کی وجہ قرار دیتے ہوئے عبدالحئی کا کہنا تھا کہ ’ہم صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہمارے باپ دادا کی قبریں ہیں جنہیں ہم چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ یہاں قدرتی چراگاہیں ہیں۔ ہمیں مویشیوں کے لیے پالنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا۔‘

شیئر: