خیبرپختونخوا میں بدامنی کی نئی لہر کی وجہ سے پاک افغان تجارت تنزلی سے دوچار ہے۔ دہشت گردی اور آئے روز کراس بارڈر فائرنگ کے باعث بارڈر بند کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے افغانستان کے تاجر وسط ایشائی ممالک کے راستے اختیار کر رہے ہیں۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر شاہد حسین نے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’موجودہ حالات کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت زوال کی جانب بڑھ رہی ہے۔ افغانستان کے تاجروں نے سامان لے جانے کے لیے پاکستان کے بجائے چابہار اور ایران کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ہمارے ٹرانزٹ ٹریڈ میں اب تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
شاہد حسین کے مطابق ’افغان تاجر کہتے ہیں کہ ان کی مال بردار گاڑیاں 10 سے 15 دن تک بارڈر پر کھڑی رہتی ہیں اور جانے کی اجازت نہیں ملتی، اور متعلقہ حکام کی یقین دہانی کے باوجود کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔‘
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی حکومت سے پہلے افغان منڈی میں ہمارے مقامی تاجروں کا مال سپلائی کیا جاتا تھا مگر اب امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے بارڈر بند کیا جاتا ہے جس کی وجہ افغان مارکیٹ تک رسائی کم ہوئی ہے۔‘
شاہد حسین کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کی وجہ سے افغان اور وسطی ایشیاء کی دو طرفہ تجارت کو شدید نقصان پہنچا ہے جس سے 1.7 ملین کی کمی آئی ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ بزنس ویزہ پالیسی کا طریقہ کار ہے جس کی سخت شرائط کی وجہ سے اب کاروباری افراد یہاں نہیں آسکتے یا پھر وہ کتراتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ افغان حکومت کو بھی ویزہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔
شاہد حسین کے مطابق جب طالبان کی حکومت آئی تھی تو شروع میں وہاں کا تاجر طبقہ پریشان تھا مگر اب افغان حکومت کی تجارت دوستی پالیسی سے وہاں کے کاروباری افراد خوش ہیں۔
سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاک افغان دو طرفہ تجارت میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو ہماری مقامی منڈی کا خریدار کوئی نہیں ہو گا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/January/36496/2023/000_32436fn.jpg)