چمن: پاکستانی فورسز اورافغان طالبان میں پھر جھڑپ، 1 ہلاک، 15 زخمی
چمن: پاکستانی فورسز اورافغان طالبان میں پھر جھڑپ، 1 ہلاک، 15 زخمی
جمعرات 15 دسمبر 2022 12:53
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ایک ہفتے میں دوسری مرتبہ چمن سرحد پر جھڑپ ہوئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک افغان سرحد پر پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان ایک بار پھر جھڑپیں ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں پاکستانی حدود میں ایک شہری ہلاک اور 15 افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
افغان میڈیا کی رپورٹس کے مطابق افغانستان کی حدود میں بھی آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
جھڑپوں کے باعث سرحدی علاقوں کے رہائشی خوفزدہ ہیں جبکہ کاروباری مراکز بند ہو گئے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر چمن عبدالحمید زہری کے مطابق ’سرحد پر تعینات افغان فورسز نے جمعرات کی دوپہر کو پاکستانی چیک پوسٹوں اور سول آبادی پر بلااشتعال فائرنگ شروع کر دی اور مارٹر اور راکٹ گولے داغے جس کے نتیجے میں 15 افراد زخمی ہوئے۔‘
ڈپٹی کمشنر چمن کی جانب سے کمشنر اور محکمہ داخلہ کو بھیجی گئی رپورٹ کے مطابق ’پاکستانی فورسز نے افغان فورسز کی بلااشتعال فائرنگ کا بھرپور جواب دیا، اور افغانستان کی حدود میں شہری آبادی کی بجائے افغان فورسز کی ان چیک پوسٹوں کو نشانہ بنا کر بھاری جانی نقصان پہنچایا گیا جہاں سے بلااشتعال فائرنگ کی جا رہی تھی۔‘
سرحد پر کشیدہ صورتحال کے پیش نظر چمن اور کوئٹہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
محکمہ صحت کے ایک اعلامیہ کے مطابق کوئٹہ سے ڈاکٹر، سرجن اور طبی عملے پر مشتمل ٹیمیں چمن بھیجی گئی ہیں۔
ایک ہفتے کے دوران پاکستانی اور افغان فورسز نے دوسری بار چمن میں ایک دوسرے پر گولہ باری کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سول ہسپتال چمن کے سینیئر میڈیکل آفیسر ڈاکٹر اختر اچکزئی نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ’15 زخمیوں کو چمن کے ہسپتال لایا گیا ہے جنہیں جسم کے مختلف حصوں میں لوہے کے ٹکڑے لگے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’زخمیوں میں دو خواتین اور دو بچے بھی شامل ہیں۔ پانچ شدید زخمیوں کو مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔‘
تاہم امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے ڈاکٹر اختر محمد اچکزئی کے حوالے سے بتایا کہ جھڑپوں کے بعد 12 زخمیوں کو ہسپتال لایا گیا۔
’زخمیوں میں سے ایک بعد میں ہسپتال میں دوران علاج چل بسے۔ ان کے مطابق چند زخمیوں کی حالت نازک ہے۔‘
چمن میں سرکاری عہدیدار عبدالحمید زہری نے بھی زخمیوں اور ہلاکت کی تصدیق کی۔
واضح رہے کہ ایک ہفتے کے دوران پاکستانی اور افغان فورسز نے دوسری بار چمن میں ایک دوسرے پر گولہ باری کی ہے۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’جمعرات کی دوپہر کو تازہ جھڑپوں کا آغاز بھی چمن کے علاقے کلی شیخ لال محمد سے ہوا ہے، جہاں 11 دسمبر کو پاکستانی اور افغان فورسز آمنے سامنے آئی تھیں، اور اس کے بعد جھڑپیں باقی علاقوں تک پھیل گئیں۔ ان جھڑپوں میں کم از کم سات افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پاکستانی فورسز باڑ کی مرمت کرنا چاہتی تھیں کہ سرحد پر تعینات افغان طالبان نے فائرنگ کی اور پاکستانی فورسز نے بھی جوابی کارروائی کی۔‘
افغان فورسز کی جانب سے داغے گئے متعدد مارٹر گولے شہری آبادیوں میں گرے، جس سے لوگ زخمی ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سیاسی قیادت، وزارت خارجہ اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے گزشتہ ہفتے ہونے والی جھڑپ کے بعد افغان فورسز کے طرز عمل کی مذمت کی تھی۔
اس جھڑپ کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعلٰی سطح پر رابطے بھی ہوئے تھے۔ تاہم جمعرات کو ایک بار پھر اسی نوعیت کا جھگڑا ہو گیا۔
ضلعی انتظامیہ کے افسر کا کہنا تھا کہ ’دونوں جانب سے راکٹ اور مارٹر گولے داغے گئے جبکہ توپوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ اس طرح جھڑپوں کا سلسلہ باب دوستی کے مشرقی اور مغربی جانب پھیل گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دونوں ممالک کی فورسز نے سرحد کے قریب قائم ایک دوسرے کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا تاہم اس کی زد میں آ کر متعدد شہری زخمی ہو گئے۔‘
مقامی لوگوں کے مطابق چمن میں کلی اڈہ کہول، بوہری کہول، بوغرہ روڈ، بائی پاس روڈ، مال روڈ، ریلوے گودام اور سرحد کے قریب کے علاقوں میں افغان فورسز کی جانب سے داغے گئے متعدد مارٹر گولے شہری آبادیوں میں گرے، جس سے لوگ زخمی ہوئے۔
چمن میں سرحد کے انتہائی قریب رہنے والے کئی شہری علاقوں کو خالی کرا لیا گیا۔ گولہ باری کے باعث چمن اور دوسری جانب افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک میں خوفزدہ شہریوں نے محفوظ مقامات پر پناہ لے لی۔
سرحد کے قریب رہنے والے مکانات خالی کر کے بال بچوں سمیت اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو گئے ہیں۔
گولہ باری شروع ہوتے ہی لوگوں نے مارکیٹیں اور دکانیں بند کرا دیں اور دیواروں کے پیچھے چھپ گئے۔
صحافی نعمت اللہ سرحدی کے مطابق ’پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان زیادہ تر جھگڑے باڑ کے معاملے پر ہوتے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ایک عینی شاہد عمران اچکزئی نے چمن سے ٹیلیفون پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’سرحد کے قریبی علاقے دھماکوں کی آوازوں سے گونج رہے ہیں، بچوں اور خواتین میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے جبکہ لوگوں نے گھر کے تہہ خانوں میں پناہ لے رکھی ہے۔‘
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولہ باری کے بعد سرحد کے دونوں جانب مختلف مقامات سے دھواں اٹھتا نظر آ رہا ہے۔
ایک ویڈیو میں تجارتی سامان سے بھری مال بردار گاڑی سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق افغانستان کی حدود میں بھی گولہ باری سے جانی نقصان ہوا ہے۔
افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق آٹھ زخمیوں کو سپین بولدک کے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
چمن سے عوامی نیشنل پارٹی کے رکن بلوچستان اسمبلی اصغر خان اچکزئی نے کہا ہے کہ افغانستان میں قبائلی عمائدین سے رابطہ کر کے جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں۔
چمن کی ضلعی انتطامیہ کے مطابق پاکستانی اور افغان حکام کے درمیان رابطوں کے بعد چھ گھنٹوں سے زائد تک جاری رہنے والی گولہ باری رک گئی۔
’روز روز کی گولہ باری سے تنگ آ گئے ہیں‘
’میرے گھر میں آٹھ مارٹر گولے گرے ہیں، میری بیوی اور بڑا بیٹا زخمی ہو گئے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر مسلم ممالک ہیں پھر کیوں آپس میں لڑ رہے ہیں اور اس کا نتیجہ ہم جیسے عام لوگوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔‘ سول ہسپتال کوئٹہ میں قائم ٹراما سینٹر میں ایمبولینس کے انتظار میں پریشان کھڑے چمن کے رہائشی حاجی سردار محمد افغانستان سے ملحقہ سرحد کے قریب رہنے والوں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے غم و غصے میں دکھائی دے رہے تھے۔
چمن انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق ’دونوں ممالک کی فورسز نے سرحد کے قریب قائم ایک دوسرے کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ہر چند منٹ بعد ٹیلیفون پر اپنے رشتہ دار سے زخمی اہلیہ اور بیٹے کو چمن سے کوئٹہ لانے والی ایمبولینس کی لوکیشن معلوم کرنے کے بعد وہ پھر خیریت دریافت کرنے والوں اور میڈیا کے نمائندوں سے مخاطب ہو جاتے۔
’روز روز کی لڑائیوں نے ہم سرحد کے قریب رہنے والوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ گھر والوں نے ان مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لیے نفلی روزے رکھے تھے لیکن آج اسی روزے کی حالت میں انہیں زخمی کیا گیا۔‘
حاجی سردار محمد نے سوال کیا کہ دونوں طرف ایک ہی قوم اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں، زبان بھی ایک ہی بولتے ہیں پھر کس بات پر لڑتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک کے ذمہ دار لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ان لڑائیوں سے سرحد پر رہنے والوں کی زندگی کتنی مشکل ہو گئی ہے۔ پہلے تو کبھی کبھی فائرنگ ہوجاتی تھی اب تو ہر ہفتے جھگڑا رہتا ہے اور دونوں ممالک کی فورسز دشمنوں کی طرح ایک دوسرے پر گولے فائر کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کسی کے گھر پر گر سکتے ہیں۔‘
’فائرنگ اور دھماکوں کی آوازوں سے ہمارے بچے خوفزدہ ہوکر رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ ڈر کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکلتے۔ سرحد کے قریب رہنے والے زیادہ تر لوگ اب علاقہ چھوڑ کر کسی محفوظ علاقے کی طرف منتقل ہونا چاہتے ہیں۔‘
’زیادہ تر جھگڑے باڑ پر ہوتے ہیں‘
گزشتہ ہفتے دونوں ممالک کے درمیان جھڑپ میں ہلاک ہونے والے سات افراد میں عبدالرحیم بھی شامل تھے، جن کی شادی تین ہفتے قبل ہوئی تھی۔
مقتول کے بھائی عبدالجبار نے بتایا کہ ’عبدالرحیم سرحد پر کاروبار کرتا تھا اور روز آنا جانا تھا۔ اس روز بھی جب وہ سپین بولدک سے واپس آ رہا تھا تو ایک گولہ آ کر اس کے قریب گرا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔‘
گولہ باری کی وجہ سے افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک میں خوفزدہ شہریوں نے محفوظ مقامات پر پناہ لی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انہوں نے بتایا کہ ’چند ہفتے پہلے ہمارے گھر میں خوشیاں تھیں لیکن اب بس دکھ اور غم ہی رہ گئے ہیں۔ اس جنگ نے ہمارے بے گناہ بھائی کی جان لے لی، معلوم نہیں اور کتنے لوگ نشانہ بنیں گے۔ سرحد پر کاروبار کرنا، آنا جانا اور سرحد کے قریب رہنا اب مشکل ہوگیا ہے۔‘
چمن کے مقامی صحافی نعمت اللہ سرحدی کا کہنا تھا کہ پاکستانی اور افغان فورسز کے درمیان جھڑپوں میں حالیہ مہینوں میں شدت آئی ہے اور کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب سرحد کے دونوں جانب تعینات فورسز ایک دوسرے پر ہوائی یا براہ راست فائرنگ نہیں کرتی۔
انہوں نے بتایا کہ ’زیادہ تر جھگڑے باڑ کے معاملے پر ہوتے ہیں۔ مقامی سمگلر پاکستان کی جانب سے غیر قانونی آمدروفت روکنے کے لیے لگائی گئی باڑ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس کے بعد جب پاکستانی فورسز باڑ کی مرمت کرنے جاتی ہیں تو طالبان کی جانب سے مزاحمت کی جاتی ہے اور بات مسلح جھڑپ تک پہنچ جاتی ہے۔‘