افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خیبرپختونخوا کے قبائلی بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی پھر سر اٹھانے لگی ہے۔
پاکستان کی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے دوران بھی ٹارگٹ کلنگ اور بھتّہ خوری کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں تاہم ٹی ٹی پی کی جانب سے سیز فائر ختم کرنے کے اعلان کے بعد سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
بنوں میں صورتحال، امریکہ کی پاکستان کو مدد کی پیشکشNode ID: 727266
-
بنوں میں آپریشن مکمل، 25 دہشت گرد ہلاک: ڈی جی آئی ایس پی آرNode ID: 727331
خیبرپختونخوا میں سکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں ایڈیشنل آئی جی پولیس محمد علی بابا خیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ہمسایہ ملک میں حالات کی وجہ سے سکیورٹی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ’ہمسایہ ملک (افغانستان) 43 برسوں سے حالتِ جنگ میں ہے۔ امریکی فوج جاتے ہوئے سات ارب ڈالر کا عسکری سامان چھوڑ کر گئی جو وہاں موجود قوتیں استعمال میں لا سکتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ظاہر سی بات ہے صوبے کے بارڈر ملے ہوئے ہیں، اب وہ کسی نہ کسی جگہ پر استعمال تو ہوں گے۔ ہمارا صوبہ براہِ راست اس سے متاثر ہو رہا ہے۔‘
ایڈیشنل آئی جی پولیس بابا خیل نے بتایا کہ ’99 فیصد بھتّے کی کالیں بارڈر کے اس پار سے آتی ہیں اس لیے انہیں ٹریس کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم بہت سے کیسز میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔‘
ان کے بقول کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ اقدامات کیے جاتے ہیں۔
محمد علی بابا خیل نے کہا کہ ’ماضی میں قبائلی علاقوں کے لیے اپنی فورس تھی لیکن صوبے میں ضم ہونے کے بعد ان اضلاع کی پولیس کا بوجھ ہمیں برداشت کرنا پڑا۔‘
