Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب اسمبلی: اعتماد کا ووٹ اور کڑا سیاسی پہرا

اپوزیشن نے ایوان میں آتے ہی نعرے بازی شروع کر دی (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں سیاسی بحران بدستور موجود ہے اور سیاسی داؤ پیچ کا سلسلہ بھی تھمنے میں نہیں آرہا۔
پیر کے روز بلایا جانے والا اسمبلی اجلاس غیر معمولی نظر آ رہا تھا۔ اجلاس شروع ہونے سے کئی گھنٹے پہلے ہی اپوزیشن (مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) اپنی پوری سیاسی طاقت کے ساتھ اسمبلی میں پہنچی۔ پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ وفاقی وزرا بشمول وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اپوزیشن کے پارلیمانی اجلاس میں پہنچے۔
دوسری طرف تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر لاو لشکر کے ساتھ موجود تھے۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ آج کچھ اہم واقعات ہونے کو ہیں۔ یہ اجلاس سپیکر سبطین خان نے 11جنوری کو ہونے والی ہائیکورٹ کی سماعت سے پہلے عمران خان کے اس اعلان کے بعد طلب کیا تھا کہ چوہدری پرویز الہی ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ تاہم اسمبلی ایجنڈا پر اعتماد کے ووٹ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس کے باوجود غیر معمولی سیاسی طمطراق دکھائی دے رہا تھا۔
دو گھنٹے سے زائد کی تاخیر سے جب شام کو اجلاس شروع ہوا تو دونوں اطراف کی سیاسی قیادت گیلری میں بیٹھی نظر آئی۔
اپوزیشن نے ایوان میں آتے ہی نعرے بازی شروع کر دی اور مطالبہ شروع کر دیا کہ پرویز الہی اعتماد کا ووٹ لیں۔ تاہم سپیکر نے معمول کی کارروائی کا آغاز کر دیا۔ ایک دوسرے کے خلاف تقاریر اور شور شرابے میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
بظاہر اعتماد کے ووٹ کے حوالے سے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے، لیکن ایوان کا ماحول انتہائی گرم تھا۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ سے جب پوچھا گیا کہ آج اتنا بندوبست کس لیے ہے؟ تو ان کا کہنا تھا ’ایک تو اپوزیشن کا ایک آئینی مطالبہ ہے کہ وزیراعلی اعتماد کا ووٹ لیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق ان کے پاس نمبر پورے نہیں ہیں۔ لیکن یہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں کوئی واردات ڈالنا چاہتے ہیں۔ تو ان کا پہرہ دینا ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان کی ایک تاریخ ہے کہ یہ آئین پر حملے کرتے ہیں جیسے انہوں نے وفاق میں ڈپٹی سپیکر سے ایک غیر آئینی رولنگ دلوائی تھی۔ یہاں بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔ ان کے پاس ووٹ تو پورے نہیں ہیں اس لیے یہ یہاں بھی جعلی اعتماد کا ووٹ یا ایسی کوئی رولنگ دے سکتے ہیں۔‘
اپوزیشن کا خدشہ اپنی جگہ لیکن اسمبلی فلور پر جاری کئی گھنٹے کے شور شرابے میں حکومت نے 21 بل منظور کروا لیے۔ سپیکر چیئر سے بار بار اعتماد کے ووٹ پر کہا جاتا رہا کہ معاملہ عدالت میں ہے اس پر بات نہیں ہو سکتی۔
پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے چوری چھپے اعتماد کے ووٹ کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن کے کہنے پر اعتماد کا ووٹ نہیں لیا جا سکتا۔ یہ گورنر اور وزیراعلی کا معاملہ ہے۔ اور عدالت بھی اس کو دیکھ رہی ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے کہ اب عدالت ہی اس معاملے کو دیکھے گی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ووٹنگ نہیں ہونی تو آج دونوں طرف طاقت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ہمیں خدشہ تھا کہ آج اپوزیشن کوئی گڑ بڑ کر سکتی ہے، کیونکہ اب ان کے پاس سوائے شور مچانے اور ایوان کی کارروائی کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے ہم پوری تیاری سے آئے ہیں۔‘

پرویز الٰہی زمان پارک میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے (فائل فوٹو: 

اسمبلی فلور پر تقریر کرتے ہوئے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے لیگی وزرا کے گیلری میں بیٹھنے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اسمبلی میں ڈیرے جما کر بیٹھنے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ فساد کی نیت سے آئے تھے۔ اور ہم نے بڑی دانشمندی سے ان کا یہ حربہ ناکام بنا دیا ہے۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی ایوان میں نہیں آئے۔ جیسے ہی اسمبلی کا اجلاس کل منگل کے روز تک ملتوی کیا گیا تو اسی وقت وہ زمان پارک میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے لیے پہنچ گئے۔ دوسری طرف جب تک اسمبلی اجلاس ملتوی نہیں ہوا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاسی لیڈر شپ اسمبلی عمارت میں موجود رہی۔
خیال رہے کہ چوہدری پرویز الٰہی واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیں گے۔ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے موقف میں بھی نرمی آئی ہے۔ اور اب اس پر عدالتی کارروائی کا انتظار کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
اسمبلی کے ماحول میں البتہ یہ بات عیاں تھی کہ فریقین ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کی چھپی سیاسی چالوں کا آخری وقت تک انتظار کرتے رہے۔
آزاد سیاسی مبصرین کے مطابق پیر کے روز اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے تقریبا ڈیڑھ ڈیڑھ سو اراکین اسمبلی میں آئے اور کسی کے پاس بھی واضح اکثریت نہیں تھی۔

شیئر: