Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا: کنویں میں گرنے والے بچے کی میت کو چھ دن بعد نکالنے کا فیصلہ

ریسکیو 1122 کے نمائندے کے مطابق بچے کو ریسکیو کرنے میں انہیں بہت مشکلات کا سامنا رہا (فوٹو: ریسکیو 1122)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے گاؤں عالم گودر میں 10 جنوری کو ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں ایک تین سالہ بچہ یحییٰ آفریدی بورنگ کے لیے کھودے گئے گہرے کنویں میں اس وقت جا گرا جب وہ اپنے نابینا والد کے ساتھ گھر جا رہا تھا۔
بچے کو نکالنے کے لیے 24  گھنٹے تک ریسکیو آپریشن کیا گیا مگر گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے کو نکالنا ممکن نہ ہو سکا۔
حادثے کے دو روز بعد والدین اور علاقے کے مشران کی مشاورت سے کنویں کو ہی بچے کی قبر قرار دیا گیا۔ 
مگر علاقہ مکینوں اور بالخصوص نوجوانوں نے بچے کو نہ نکالنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور عمائدین سے مطالبہ کیا کہ بچے کی لاش کو نکالا جائے تاکہ باقاعدہ طور پر تدفین کی جا سکے۔
عوام کے پرزور مطالبے کے بعد باڑہ سیاسی اتحاد کے نام سے ایکشن کمیٹی بنائی گئی جس میں ایم این اے اقبال آفریدی، ایم پی اے شفیق آفریدی اور تحصیل چیئرمین مفتی محمد کفیل سمیت ریسکیو کے اہلکار شامل کیے گئے۔
سیاسی اتحاد کے صدر شاہ فیصل آفریدی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ لواحقین نے اپنا اختیار کمیٹی کو دے دیا ہے جبکہ ایکشن کمیٹی کا یہ فیصلہ ہے کہ بچے کی لاش کو نکالا جائے گا۔ علاقے کے مخیر حضرات اور کچھ سماجی ورکرز مشینری لے کر پہنچ چکے ہیں  ۔
’سب چاہتے ہیں کہ کنواں کھودا جائے، لیکن اس کا طریقہ کار ہم نے طے کرنا ہے تاکہ لاش کو نقصان پہنچائے بغیر باہر نکالا جا سکے۔‘
شاہ فیصل کا کہنا تھا کہ اس واقعے پر سب کو افسوس ہے آج ایک ہفتے بعد بھی علاقے میں سوگ کا سماں ہے۔
باڑہ ریسکیو 1122 کے نمائندے مقصود آفریدی نے اُردو نیوز کوبتایا کہ ’کنویں کی گہرائی 85 میٹر جبکہ اس کی چوڑائی 12 انچ ہے جس کی وجہ سے بچے کو ریسکیو کرنے میں ہمیں بہت مشکلات کا سامنا رہا تھا۔ اب جبکہ دوبارہ اس کی کھدائی کا فیصلہ کیا گیا ہے تو میرا مشورہ ہے کہ اس میں بہت احتیاط کی ضرورت ہو گی۔‘
مقصود آفریدی کے مطابق زمین پتھریلی اور کچی بھی ہے جس کی وجہ سے پتھر کنویں میں گرنے کا خدشہ ہے، ایسا نہ ہو کہ لاش کو مزید نقصان پہنچے۔ 
’میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ ایسے آپریشن کے لیے روبوٹ مشین کا استعمال بہتر ہو گا۔‘

والدین اور علاقے کے مشران کی مشاورت سے کنویں کو ہی بچے کی قبر قرار دیا گیا (فوٹو: عامر آفریدی)

مقامی سماجی رہنما جان محمد کا کہنا تھا کہ سیاسی اتحاد کے جرگے میں آج آپریشن کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس کو لواحقین، سماجی رہنماؤں اور علاقے کی مشران کی حمایت حاصل ہے۔ 
پہلے مرحلے میں تکنیکی طریقے سے مشینری کے ذریعے بچے کی لاش کو نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو پھر کھدائی کرنی پڑے گی۔
جان محمد نے اُردو نیوز کو بتایا کہ مقامی نوجوان کل رات سے کنویں کی کھدائی کے لیے تیار بیٹھے ہوئے ہیں مگر ان کو  اجازت نہ دی گئی یونکہ خدشہ تھا کہ کوئی اور حادثہ پیش نہ آ جائے۔ 
’لوگوں کے جذبات کو ہم سمجھ سکتے ہیں لیکن ایسے موقعے پر عقل اور ہوش سے کام لینا ہوگا۔‘ 
جان محمد کا کہنا تھا کہ ’بچے کی لاش کو نکالنے کے لیے ہمیں کراچی اور دیگر شہروں سے مخیر حضرات اپنے تعاون کی پیشکش کر رہے ہیں۔‘

شیئر: