بلدیاتی الیکشن: پی ٹی آئی کو کراچی میں شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
بلدیاتی الیکشن: پی ٹی آئی کو کراچی میں شکست کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟
منگل 17 جنوری 2023 5:26
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
بلدیاتی انتخابات میں تیسری پوزیشن سے پارٹی کارکن مقامی قیادت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ملک بھر سمیت کراچی میں مقبولیت کا دعویٰ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کو بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔
پیر کی رات الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کیے گئے غیرحتمی نتائج کے مطابق کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف 246 میں سے صرف 40 نشستیں لے سکی ہے۔ ان نتائج سے پارٹی کی مقبولیت کے دعوں کو بڑا دھچکہ پہنچا ہے۔
عمران خان کی کال پر شہر میں بڑے بڑے جلسے کرنے والی پارٹی کی کراچی میں شکست پر صوبائی صدر علی زیدی نے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا ہے۔
پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے الیکشن کمیشن پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’الیکشن کمیشن دھاندلی میں براہ راست ملوث ہے۔‘
جس کراچی میں پی ٹی آئی نے سنہ 2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 14 نشتسوں پر کامیابی حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی، وہاں پانچ سال بعد تیسری پوزیشن سے پارٹی کارکنان بھی حیران ہیں اور سوشل میڈیا پر مقامی قیادت کے خلاف غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
شکست کی کیا وجوہات ہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار ضرار کھوڑو کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں ناقص کارکردگی کے کئی عوامل ہیں۔‘
’پہلی بات تو یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات کی حرکیات الگ ہوتی ہیں۔ خان صاحب کا بیانیہ ضروری نہیں کہ لوکل باڈیز کی سطح پر بھی اسی طرح اثر کرے جیسے قومی سیاست پر کرتا ہے۔ لوکل باڈیز میں قومی یا صوبائی لیڈر کی مقبولیت اہم نہیں ہوتی بلکہ بنیادی سطح کا تنظیمی ڈھانچہ اہم ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مانا کہ خان صاحب بہت مقبول رہنما ہیں مگر پی ٹی آئی کی مقامی قیادت زمین سے کٹی ہوئی ہے اور وہ ٹویٹس اور پریس کانفرنسوں سے سیاست کر رہی ہے، جب تک گراؤنڈ کی سطح پر پارٹی کا ڈھانچہ نہیں بنتا کامیابی نہیں ملتی۔ پی ٹی آئی کے میئر کے امیدوار کا نام بھی لوگوں کو نہیں پتا۔‘
ضرار کھوڑو نے مثال دی کہ ’جماعت اسلامی نے یونین کونسل کی سطح پر گھر گھر جا کر انتخابات کی مہم چلائی اور وہ مہم بھی ایک ماہ پہلے نہیں بلکہ برسوں تک چلائی، کراچی کے مسائل پر احتجاجوں میں شرکت کی تو اس کا بہت اہم کردار تھا بلدیاتی نتائج میں۔‘
’دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس صوبائی حکومت تھی اس کا بھی نتائج پر اثر ہوا، کیونکہ لوگ ووٹ دیتے وقت دیکھتے ہیں کہ حکومت جس جماعت کی ہے ان سے منسلک نمائندہ ان کے کام زیادہ کروا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ گذشتہ دور میں ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر تھے مگر ان کے پاس اختیارات نہیں تھے جس سے واضح ہوا کہ جس جماعت کی صوبے میں حکومت ہو اسی کا میئر ہو تو زیادہ ترقیاتی کام ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی نے حکومت میں ہونے کے باعث ’حلقہ بندیوں میں بھی اپنا مفاد دیکھا‘ جیسا کہ ہر جگہ صاحب اقتدار پارٹی دیکھتی ہے۔
’تیسری بات یہ کہ کراچی ایک شہر نہیں اس میں چھوٹے چھوٹے چھ سات شہر بستے ہیں، جہاں ملک کے الگ الگ حصوں سے لاکھوں کی تعداد میں آئے لوگ بستے ہیں۔ ان سب کی اپنی پسند ناپسند ہے اس کا بھی فرق پڑتا ہے۔‘
’شکست پی ٹی آئی کے لیے دھچکہ ہے‘
کراچی میں ڈان ٹی وی سے منسلک تجزیہ کار نادیہ نقی کے مطابق ’پی ٹی آئی نے انتخابی مہم چلائی ہی نہیں۔ پارٹی قیادت کو یقین تھا کہ شاید بلدیاتی انتخابات تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جماعت اسلامی اور پی پی پی نے بلدیاتی انتخابات میں ڈور ٹو ڈور مہم چلائی مگر پی ٹی آئی نے ایسا نہیں کیا۔‘
نادیہ نقی نے کہا کہ ’پارٹی کے اندر بہت سارے جھگڑے چل رہے تھے۔ میئر کا نام بھی فائنل نہیں ہو رہا تھا، کوئی فردوس نقوی کا نام لے رہا تھا تو کوئی خرم شیر زمان کا۔‘
’پارٹی کے کراچی کے صدر علی زیدی کہیں گراؤنڈ پر نظر نہیں آتے تھے صرف پریس کانفرنسیں کرتے رہے۔ عوام کے ساتھ رابطے کا فقدان تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کراچی میں شکست پی ٹی آئی کے لیے دھچکہ ہے، اب عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ سندھ کے بغیر وہ عام انتخابات کیسے جیتیں گے۔‘
’میری کراچی میں پی ٹی آئی کے حامیوں سے بات ہوتی ہے تو وہ پی ٹی آئی دور حکومت میں پارٹی کی طرف سے کراچی کو نظرانداز کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔‘