شوہر کے تعاون کے بغیر خاندان کا نظام نہیں چل سکتا،میں نے کوئی اچھا کام کیا ہوگا جو انعام میں ایسا شوہر ملا، ہوا کے دوش پر گفتگو
تسنیم امجد ۔ ریاض
پتا نہیں یہ تلخ ہے یا شیریں، مگرحقیقت ہے کہ سچی محبت وہی کہلاتی ہے جس میں کسی بھی انسان یا بے جان کو اس کی تمام تر اچھائیوں، برائیوں، رعنائیوں، بے اعتنائیوں، بے وفائیوں، پہنائیوں اور گہرائیوں کے ساتھ چاہا جاتا ہے ۔ اس کی تکلیف بھی راحت لگتی ہے، اس کی دشمنی بھی چاہت لگتی ہے، اس کی نفرت بھی محبت لگتی ہے، اس کی غیریت بھی اپنائیت لگتی ہے، اس کی اسیری بھی جائے پناہ لگتی ہے، اس کی لاپروائی بھی نباہ لگتی ہے، اس کی فقیری بھی حشم و جاہ لگتی ہے،اس کی پگڈنڈی بھی شاہراہ لگتی ہے، اس کے سوال بھی جواب لگتے ہیں، اس کے ذرے بھی آفتاب لگتے ہیں، اس کے جگنو بھی ماہتاب لگتے ہیں،اس کے خار بھی گلاب لگتے ہیں، وہ جو ہم پر قدرت کا احسان ہے، جو ہماری شان ہے، جو ہم بے نواؤں کی آن ہے،جوہمارا ایقان ہے،اس ارضِ پاک کا نام پاکستان ہے جس کے لبوں پر آتے ہی دل مچل اٹھتا ہے اور زبانِ قلم جذبۂ حب الوطنی کو یوںنذرِ قرطاس کرتی ہے کہ :
جس وطن کا خار مثلِ سنبل و ریحان ہے
ہم ہیں اس کے پاسباں اوریہ ہماری شان ہے
خونِ دل دیں گے، نکھاریں گے، سنواریں گے اسے
*جان سے پیاری ہمیں یہ ارضِ پاکستان ہے اردو نیوز کے سلسلے دیس پردیس کے نظر نواز
ہونے سے زندگی کے وہ لمحے بے اختیار یاد آجاتے ہیں جو وطن کی آزاد فضاؤں میں گزرے ہیں یا گزرتے ہیں۔ دوست ، عزیز و اقارب اور ہم وطنوں کے درمیان گزرے دنوں کی یادیں کھلی آنکھوں دیکھے جانے وا لے خواب کی مانند ذہن میں گھومنے لگتی ہیں ۔ اک عجب بے قراری کی سی کیفیت ہوتی ہے ۔ شاید یہی کیفیت حب وطن کی روح ہے ، اسی لئے کہا گیا ہے کہ وطن کا کانٹا بھی سنبل و ریحان ہے۔
پردیس کی شاداں و فرحاں زندگی ، اس جذبے کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتی۔ تبھی سالانہ تعطل کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے۔ جوں جوں دن قریب آتے ہیں ،تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی دید کی تڑپ میں اضافہ ہوتاجاتا ہے۔
اردو نیوزکے زیر نظر سلسلے ’’ہوا کے دوش پر‘‘یا ’’دیس پردیس‘‘ سے بلا شبہ خوشبوئے وطن آتی ہے۔ قارئین کو اردو نیوز کا یہ سلسلہ شاید اسی لئے بے حد پسند ہے کہ انہیں اس میں وطن کی خوشبو آتی ہے ہر جمعہ کو بے چینی سے اس کا انتظار ہوتا ہے تاکہ کچھ لمحوں کے لئے حسین اور ناقابل فراموش ماضی کی باقیات محسوس کی جائیں۔ ذہن کے نہاں خانے میں یہ بازگشت سنائی دینے لگتی ہے:
جہاں ملے بھی تو کیا ساتھ گر ترا نہ ملے
میں تجھ سے دور رہوں ، ایسا حوصلہ نہ ملے
اس ہفتے ہماری مہمان کنول منظور ہیں جو ایک
ہمہ جہت صفت شخصیت کی مالک ہیں ان کے بارے میں لکھنے سے پہلے کچھ اشعار ان کی نذر ہیں:
یہ کامیابیاں، عزت، یہ نام تم سے ہے
خدا نے جو بھی دیا ہے مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں میرے لبوں پر کھلتے گلاب
میرے وجود کا سارا نظام، تم سے ہے
کنول منظور خود ایک تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ ایم ایس سی اور پھر ماسٹرز اسلامیات میں کرنے کے بعد انہیں ملازمت کی پیشکش ہوئی جو انہوں نے صرف اس لئے رد کردی تاکہ اپنے بچوں پر زیادہ زیادہ توجہ دے سکیں۔’’ ہوا کے دوش پر‘‘ ان سے ملاقات کے احوال سے یقینا محظوظ ہونگے۔ گزشتہ دنوں شہر لاہور کا موسم خوشگوار تھا ۔کنول منظور اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ روبرو تھیں، کہنے لگیں !دل تو یہی چاہ رہا ہے کہ ہم ابھی مل کر آم کھائیں کیونکہ یہ دونوں ، حارث منظور اور شعیب منظور میرے دائیں بائیں اسی لئے موجود ہیں۔
ان کا لِونگ روم نہایت قرینے سے سجا تھا جو خاتون خانہ کے سلیقے کا مظہر تھا۔ کنول کہنے لگیںکہ ویسے تو ہر ماں ہی اپنے بچوں کا خیال دل و جان سے رکھتی ہے لیکن میں رب کریم کی رحمتوں کی شکرگزار ہوں جس نے میرے بیٹے حارث کو خصوصی ٹیلنٹ سے نوازا اور مجھے اس کی پرورش کی توفیق عطا فرمائی۔ اس بچے نے صرف 9 برس کی عمر میں کیمبرج یونیورسٹی سے ’’او لیول‘‘ کا امتحان پاس کرکے یونیورسٹی کا 804 سالہ ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سے پہلے اتنی کم عمری میں کامیابی کی مثال ان کے ریکارڈ میں موجود نہیں تھی۔ ہم نے چوتھی جماعت تک اسے اسکول میں پڑھایا اور پھر گھر پرتدریس جاری رکھی یعنی 7 کلاسیں صرف 13 ماہ میں کروائیں۔ ہر کلاس صرف 55 دن میںمکمل ہوئی۔ اس سلسلے میں میرے شوہر رائے منظور ناصر کا تعاون بھی قابل ستائش ہے ۔اپنے شوہر کے تعاون کے بغیر کوئی خاتون بھی حسب خواہش خاندان کا نظام نہیں چلاسکتی۔ ہم نے اس کا باقاعدہ ٹائم ٹیبل ترتیب دیا ہوا تھا۔ 8 گھنٹے روزانہ مطالعہ کے لئے وقف تھے۔ سونے ، کھانے، کھیلنے کے اوقات مقرر تھے۔ اس کے ساتھ ہمیں اسی طرح چلنا پڑتا تھا۔ ہماری گفتگو نہایت دلچسپی کے دائرے میں داخل ہوچکی تھی کہ اچانک کنول نے کہا کہ میرے شوہر بھی آگئے ہیں ۔آپ کو یقینا ان سے مل کر اچھا لگے گا۔ اس دوران شوہر کمرے میں داخل ہوچکے تھے۔
انہوں نے اپنی اہلیہ کو مخاطب کر کے کہا کہ بیگم! اگر آپ کی اجازت ہوتومیں اپنا تعارف خود ہی کروا دیتا ہوں ۔ کنول بولیں کہ ضرور، میں آپ کیلئے چائے لاتی ہوں۔ اس طرح اب ہماری گفتگو رائے منظور ناصر سے ہونے لگی ان سے بات ہوئی توذہن میں یہ خیال در آیا کہ :
آسماں کے اوج سے افکار کو واپس بلا
یہ زمین سب کچھ ہے ناداں، آسماں کچھ بھی نہیں
رائے منظورکہنے لگے کہ میں سول سروس میں مختلف عہدوں پر فائزرہا۔ کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سیکریٹری، مجسٹریٹ، مرکزی اور صوبائی سطح کے عہدوں پر رہا۔ میری سب سے پہلی تقرری بطور مجسٹریٹ درجہ اول ہوئی تھی۔
سول سروس میں کام کرنے کی تربیت میںنے اپنے والد حاجی رائے اللہ داد صاحب سے ہی حاصل کی تھی۔ گو کہ وہ خود زمیندار اور بزنس مین تھے لیکن انہوں نے زندگی گزارنے کے زریں اصول ہمیں بچپن سے ہی ازبر کرانے شروع کردیئے تھے۔ میں ابھی 6 سال کا تھا تو بینک میں میرا اکاؤنٹ کھلوا دیاگیا۔ اس کا اکاؤنٹ نمبر مجھے ابھی تک یاد ہے جو 633تھا ۔ یہ صرف اس لئے کہ پاکٹ منی یعنی جیب خرچ کوسنبھالنے کا سلیقہ آجائے پھر وہ دکان سے ڈھیروں سکے منگوا کر مجھے اور دوسروں کو گننے اور الگ الگ کرنے کے لئے کہتے۔ تب ہمیں یہ بہت مشکل لگتا تھالیکن والد صاحب کے رعب کے باعث ہمیں مجبوراً کرنا پڑتاتھا۔
دونی، چونی ، اٹھنی اور دوسرے سکوں کو الگ کرنا آسان نہ تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ ان کے انداز نے ہی میری شخصیت میں محنت اور نظم و ضبط کی خصوصیات پیدا کیں۔ بیگم نے کہا کہ اسی لئے ان کا نام امسال اکاؤنٹیبلٹی لیب کے تحت’’ انٹیگرٹی آئیڈل ونر ‘‘میں منتخب ہوا ہے۔ رائے منظور ناصر نے کہا کہ اس لیب کو امریکہ میں بلیئر گلین کورس نے تشکیل دیا ہے جس کے پیچھے گڈ گورننس کی نشوونما ہے۔ سول ملازمین کی مستقل ایک تنظیم ہے جس کا اولین فرض قوانین کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ انہیں حقیقت میں ریاست کے 4ٹائر کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ حکومتی کارکردگی کے ذمہ دار یہی ہیں۔ ان کا شفاف ہونا بہت ضروری ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ان کا کردار عوام کے خدمت گاروں کے طور پر سامنے آتا ہے ۔ وہ قانون کی بالادستی کو ہر کام پر مقدم سمجھتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ان سے اکثر شکایت ہی رہتی ہے۔ یہ افسر شاہی کا روپ اختیار کر جاتے ہیں جو وزراء اور حکومتی اشاروں پر ہی چلتی ہے۔ یہی بنیاد ہے کرپشن کی۔ سیاستدان افسر شاہی کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں اور حکمران انہیں سہارا دیتے ہیں، اس طرح ملکی ریڑھ کی ہڈی کمزور ہوجاتی ہے۔
اس لیب میں سب سے پہلے زیادہ کرپشن والے ممالک کو مدنظر رکھا گیا ۔ یہ 46 ممالک کی فہرست تھی جس میں بدقسمتی سے پاکستان کا نام بھی آیا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان سرکاری ملازمین کی کارکردگی کو دیکھا جائے جنہوں نے کرپشن کے باوجود نہایت ایمانداری سے کام کیا۔ اسے تشکیل دینے والی امریکی کا نظریہ یہ تھا کہ جب برے لوگوں کو ہم سلاخوں کے پیچھے بھیجتے ہیں تو اچھا کام کرنے والوں کو سامنے کیوں نہ لایا جائے؟ 2014 ء میں یہ کام نیپال سے شروع ہوا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کے ناموں کا انتخاب کیاجاتا ہے پھر عوام کی ووٹنگ کے ذریعے ان کا چناؤ ہوتا ہے۔ آخر میں پانچ نام منتخب کرکے ان کی سلیکشن ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک کو منتخب کیاجاتا ہے جسے انٹیگرٹی آئیڈل قرار دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھر کنول منطور نہایت جوش سے بولیں کہ میرے شوہر اس سال کے’’ انٹیگرٹی آئیڈل آف پاکستان‘‘ قرار دیئے گئے ہیں۔ رائے منطور ناصر کی تقرری آجکل سیکریٹری آف پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لیکویڈیشن یعنی دیوالئے کے قرض کی ادائیگی کے بورڈ میں کی گئی ہے۔ انہوں نے جائداد کی رجسٹریشن سے رشوت کا مکمل خاتمہ کردیا جو بہت بڑی کامیابی ہے۔ رائے منظور نے کہا کہ اس مقام پر غرباء بے چارے سالوں منتظر رہتے تھے کہ جن کے پاس بنیادی ضروریات زندگی بھی نہ ہوں۔ وہ بھلا اس مقدمے بازی سے کہاں جان چھڑا سکتے ہیں کیونکہ رشوت کے بغیر کچھ ممکن نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا نمبر، دفتر کے باہر لکھ دیا اور کہاکہ کوئی ایک روپیہ بھی رشوت مانگے تو مجھے فوراً پیغام ارسال کردیں۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ جہاں جہاں میری تقرری رہی ہے، وہا کے لوگوں کے ووٹوں سے مجھے یہ اعزاز ملا ہے۔ ووٹنگ اور اناؤنسمنٹ میں ٹیلیوژن چینلز نے بہت کام کیا۔
کنول نے کہا کہ مجھے وہ لمحہ اوروہ سیکڑوں کا مجمع جس میں، میں بھی تھی ،ہمیشہ یاد رہے گا۔ سیاسی لیڈر، سول افسران، دوسرے ممالک کے سفرا ء اور سربراہان کی موجودگی میں جب میرے شوہر کو اس سال کا سب سے ایماندار افسر ہونے کااعزاز ملا۔ رائے منظور نے کہا کہ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولے گا جب میرے بیٹے حارث منظور کو ملکی سطح پر پذیرائی مل رہی تھی۔ جنرل راحیل شریف نے اسے اعزازی طور پر کیپٹن بنایا۔ صوبائی سطح پر بھی اسے مدعو کر کے انعامات سے نوازا گیا۔ کنول نے کہا کہ حارث اور شعیب جڑواں بھائی ہیں لیکن دونوں میں یکسانیت نہیں جبکہ سنتے اوریکھتے یہی آئے ہیں کہ جڑواں بچے، دیکھنے میں اورعادات میں بھی بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ شعیب منظور ابھی چھٹی جماعت میں ہے جبکہ حارث ،ماشاء اللہ، اب اے لیول کے امتحان دے رہا ہے۔ جسمانی اعتبارسے بھی شعیب عمر کے لحاظ سے صحیح ہے جبکہ حارث اس سے دگنا نظر آتا ہے۔ اسے کھانے پینے کا شوق ہے اس لئے ہم نے اسے پڑھانے میں اس سے فائدہ اٹھایا اور مختلف لالچ دے کر یہ یاد کرلو تو وہاں چلیں گے یا میں یہ پکاؤں گی وغیرہ وغیرہ۔ شعیب تخلیقی ذہن کا مالک ہے، وہ کتابیں پڑھتا ہے یا کچھ نہ کچھ لکھتا ہے جبکہ بڑابیٹا ،اس کے لئے میں یہ کہوں گی کہ:
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھئے جاکر نظر کہاں
کنول منظور نے کہا کہ ہم دونوں کی معاونت سے ہی ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ گھر میں حکم میرے شوہر کا ہی چلتا ہے جبکہ میں اس پر عمل پیرا ہوتی ہوں۔ دین اسلام کے احکامات کے مطابق عائلی زندگی گزارنے میں ہی اصل لطف ہے۔ ہم دونوں کو ادب سے لگاؤ ہے اسی لئے ہم کبھی کبھی کچھ وقت نکال کر پڑھتے ہیں۔ مجھے علامہ اقبال کی شاعری میں جو پیغام ملتا ہے وہ اور کسی شاعر کی شاعری میں نہیں ملتا۔ یہ شاید میری پسند کی انتہاء ہے۔ میںاقبالیات کو بھی شوق سے پڑھتی ہوں جبکہ میرے شوہر ہر طرح کی شاعری پڑھتے ہیں لیکن فیض احمد فیض کے اشعار انہیں زیادہ پسند ہیں ۔
منظور ناصر نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آج کل کے اکثر والدین بے بس و مجبور ہو کر غیر اسلامی رسموں کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ نسلِ نومیڈیا کو اور ٹیکنالوجی کو غلط استعمال کررہی ہے جس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں مل کر ان رویوں کا قلع قمع کرنا ہوگا۔محترمہ کنول نے کہا کہ خاندان کے بزرگ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رائے منظور ناصر ایک بہترین شوہر اور باپ ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ میں نے ضرور کوئی اچھا کام کیا ہوگا ،تبھی قدرت نے مجھے انعام میں ایسا شوہر دیا۔ رائے منظور ناصر بھی بیگم کو اپنے لئے قدرت کا انعام قرار دے رہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ بچوں کو کمسنی میں بہترین ماحول دینے کی کوشش کرنی چاہئے، یہ چھاپ زندگی بھر قائم رہتی ہے۔