پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں ٹیمپرڈ گاڑیوں کے خلاف محکمۂ ایکسائز نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
کراچی کے پوش علاقے سی ویو میں حالیہ چیکنگ کے دوران ایسی متعدد گاڑیاں پکڑی گئی ہیں جن پر سرکاری نمبر پلیٹس لگی ہوئی تھیں اور وہ محکمہ کسٹمز کے افسروں کے استعمال میں تھیں۔
چیکنگ کے دوران محکمۂ ایکسائز اور کسٹمز اہلکاروں کے درمیان شدید تلخ کلامی بھی ہوئی۔ کسٹمز حکام کی جانب سے گاڑیوں کے استعمال کے حوالے سے وضاحت دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ گاڑیاں محکمانہ امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔
مزید پڑھیں
صوبائی وزیر ایکسائز مکیش کمار چاؤلہ نے اس کارروائی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی شخص، چاہے وہ کسی بھی ادارے سے تعلق رکھتا ہو، قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’ٹیمپرڈ گاڑیوں کے خلاف مہم بلاامتیاز جاری رہے گی اور یہ کارروائی اس وقت تک نہیں رُکے گی جب تک غیر قانونی گاڑیوں کا مکمل خاتمہ نہ کر دیا جائے۔‘
صوبائی وزیر کے مطابق ’صرف دو روز میں پانچ ٹیمپرڈ گاڑیاں قبضے میں لی گئی ہیں اور آئندہ دنوں میں یہ مہم مزید تیز کی جائے گی۔‘
ٹیمپرڈ گاڑیوں سے کیا مراد ہے؟
ٹیمپرڈ گاڑیاں وہ ہوتی ہیں جن کے چیسز نمبر، انجن نمبر یا دیگر شناختی علامات میں تبدیلی کی جاتی ہے تاکہ چوری شدہ یا غیر قانونی گاڑی کو قانونی ظاہر کیا جا سکے۔
ان گاڑیوں میں اکثریت نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ہوتی ہے جو عموماً کسٹمز حکام کارروائی کرتے ہوئے اپنی تحویل میں لیتے ہیں۔
اکثر اوقات ایسی گاڑیاں جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں بھی چلی جاتی ہیں جو انہیں اغوا، ڈکیتی اور اسی نوعیت کے دیگر سنگین جرائم میں استعمال کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ٹیمپرڈ گاڑیوں کا خاتمہ نہ صرف قانونی تقاضا ہے بلکہ شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
ترجمان محکمۂ کسٹمز عرفان علی کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ کسٹمز حکام یا کوئی سرکاری ادارہ اپنی ضرورت کے پیشِ نظر سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے ان گاڑیوں کو استعمال کر سکتا ہے۔‘

عرفان علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’پیر کو کراچی میں پیش آنے والے واقعے پر محکمۂ کسٹمز اور محکمۂ ایکسائز کے اعلٰی افسران آن بورڈ ہیں، اور اس معاملے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔‘
’محکمہ کسٹمز یہ ضروری سمجھتا ہے کہ سرکاری نمبر پلیٹس پر چلنے والی ان گاڑیوں کے حوالے سے محکمہ ایکسائز کی شکایت کو دُور کرے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حالیہ واقعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ محکمہ ایکسائز کے پاس ان گاڑیوں کی تفصیلات موجود نہیں تھیں جس وجہ سے انہیں روکا گیا تھا۔‘
محکمۂ کسٹمز کس قانون کے تحت ٹیمپرڈ گاڑیاں استعمال کرتا ہے؟
کراچی میں کسٹمز کے شعبے سے متعلق رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی نادر خان کے مطابق ’محکمۂ کسٹمز ٹیمپرڈ گاڑیوں کے استعمال کا قانونی اختیار رکھتا ہے جو اسے کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت حاصل ہے۔‘
’اس قانون کے مطابق اگر کوئی گاڑی یا سامان ضبط کر لیا جائے اور قانونی کارروائی مکمل ہو جائے تو اسے سرکاری استعمال، نیلامی یا تلف کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔‘
کسٹمز حکام کے مطابق ’ایسی گاڑیاں جن کے چیسز یا انجن نمبر ٹیمپر کیے گئے ہوں، انہیں عام شہریوں کو فروخت نہیں کیا جاتا بلکہ وہ صرف سرکاری استعمال میں ہی لائی جا سکتی ہیں یا عدالت کی اجازت سے ختم کر دی جاتی ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق ٹیمپرڈ گاڑیاں اکثر قانونی پیچیدگیوں کا شکار رہتی ہیں، اس لیے انہیں پبلک نیلامی میں شامل نہیں کیا جاتا تاکہ یہ دوبارہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں استعمال نہ ہوں۔
نادر خان کا مزید کہنا ہے کہ ’کسٹمز ایکٹ کی شق 169 کے تحت ضبط شدہ اشیا کی نیلامی، تلفی یا سرکاری محکموں کو حوالگی کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے جب کہ شق 182 کے تحت عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد حکام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ضبط شدہ گاڑیوں کا مستقبل طے کریں۔
’ایف بی آر اور وفاقی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق ٹیمپرڈ گاڑیوں کے استعمال کے لیے باقاعدہ اجازت درکار ہوتی ہے اور یہ صرف محدود محکمہ جاتی دائرہ کار میں ممکن ہوتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ایسی گاڑیوں کا استعمال نہ صرف قانون شکنی کے زُمرے میں آسکتا ہے بلکہ اس سے سکیورٹی خدشات بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
صوبائی وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے بھی اس مہم کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اب سندھ میں بغیر نمبر پلیٹ گاڑی تو دُور، غیر رجسٹرڈ گاڑیاں بھی سڑکوں پر نظر نہیں آئیں گی۔

ان کے مطابق ’ہر وہ شورُوم جو بغیر رجسٹریشن کے گاڑی نکالے گا، وہ شورُوم سیل اور گاڑی ضبط کر لی جائے گی۔‘
شرجیل میمن نے مزید کہا کہ ’ٹیمپرڈ اور غیر قانونی گاڑیوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کے تحت کارروائیاں جاری رہیں گی اور اس مہم کا دائرہ کار پورے صوبے میں پھیلایا جائے گا تاکہ کوئی مجرم قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔‘
قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ ’ٹیمپرڈ گاڑیوں کے خلاف حالیہ کارروائیاں خوش آئند ہیں مگر یہ مہم وقتی نہیں ہونی چاہیے۔‘
’اس معاملے پر مستقل بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر سے بھی ان عناصر کو بے نقاب کرنا ہوگا جو اس قسم کی گاڑیوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔‘
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے خود غیر قانونی گاڑیوں کے استعمال میں ملوث ہوں تو یہ نہ صرف قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ شہریوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔‘
محکمۂ ایکسائز کی جانب سے عوام کو یہ ہدایت بھی جاری کی گئی ہے کہ وہ گاڑی خریدنے سے قبل اس کے کاغذات اور چیسز نمبر کی مکمل تصدیق کریں۔
’شہری محکمۂ ایکسائز کے آن لائن پورٹل کے ذریعے بھی گاڑی کی قانونی حیثیت چیک کر سکتے ہیں تاکہ کسی بھی قانونی پیچیدگی یا پریشانی سے بچا جا سکے۔‘