Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کو بڑا عہدہ دینے پر ن لیگ میں دراڑیں پڑ رہی ہیں؟

ماضی قریب میں بھی ن لیگ میں دو بیانیے سامنے آئے تھے اور رہنماؤں میں تقسیم دیکھی گئی۔ فائل فوٹو: ن لیگ فیس بک
پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ اقتدار میں ہے اور ن لیگ کے قائد نواز شریف اپنے علاج کی غرض سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔
الیکشن کا دور دورہ ہے تو اس صورت حال میں پارٹی نے عملی طور پر جماعت کی باگ ڈور مریم نواز کے ہاتھ میں دے دی ہے۔ وہ اس وقت سینیئر نائب صدر کے ساتھ پارٹی کی چیف آرگنائزر بھی ہیں۔ مریم نواز کی وطن واپسی جنوری کے آخری ہفتے میں متوقع ہے۔
ان کی واپسی سے قبل لیکن مسلم لیگ ن کے اندر کچھ ایسی کھچڑی پک رہی ہے جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید کچھ رہنما مریم نواز کے اتنے طاقتور ہو جانے کو پسند نہیں کر رہے۔ مریم نواز کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہونے کا اندازہ خود پارٹی کو اس وقت ہوا جب نواز شریف کے دست راست سمجھے جانے والے پارٹی کے اس وقت کے اہم رہنما چوہدری نثار نے کھل کر مریم نواز کی قیادت کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔
انہوں نے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ ’مریم نواز کے تند وتیز بیانات کی وجہ سے پارٹی بند گلی میں آ گئی ہے۔‘ ایک اور بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ مریم نواز کی قابلیت صرف یہ ہے کہ نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے مریم نواز کو اپنی لیڈر کبھی تسلیم نہیں کیا۔
ماضی قریب میں مسلم لیگ ن پر جب برا وقت تھا اور تقریبا تمام قیادت جیلوں میں تھی تو اس وقت بھی پارٹی کے اندر دو بیانیوں اور دوگروپوں کی بات ہوتی تھی۔ ایک طرف شہباز شریف تو دوسری طرف نواز شریف۔ عتاب کے دنوں میں نواز شریف کے حق میں کھل کر بولنے والوں میں اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، جاوید لطیف اور طلال چوہدری پیش پیش تھے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے باپ کی قید کے دوران ان کا کیس پبلک میں لڑا اور بڑے جلسے کیے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

باقی زیادہ تر رہنماؤں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔ ایسے تمام پارٹی لیڈروں کو شہبازشریف کے ’مکتبہ فکر‘ کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی البتہ دونوں طرف رہے وہ ایک طرف نواز شریف کے معتمد خاص اور وزیراعظم کے عہدے تک بھی پہنچے تو دوسری طرف مفتاح اسماعیل کے ساتھ ان کا اقتصادی نظریہ اسحاق ڈار سے دور اور شہباز شریف کے قریب تھا۔
اب مریم نواز کو پارٹی کے اندر طاقت سونپے جانے کے بعد مسلم لیگ ن میں نئی صف بندیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے2021 میں ایک بیان دیا تھا کہ مریم ن لیگ کی وزیراعظم کی امیدوار نہیں جس پر پارٹی کے اندر بھی کافی آوازیں اٹھی تھیں۔
حال ہی میں  ایک ٹی وی شو میں ان سے جب میزبان نے پوچھا کہ کیا مریم نواز کے واپس آنے سے پارٹی کو فائدہ ہو گا؟ تو انہوں نے اس کا براہ راست جواب دینے کی بجائے یہ کہا کہ ’نواز شریف کے آنے سے فائدہ ضرور ہو گا۔‘ اسی طرح مفتاح اسماعیل نے بھی ایک ٹی وی ٹاک شو مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ن لیگ کی نوجوانوں کی تنظیم کا سربراہ بنائے جانے کے سوال کو ہنس کر ٹال دیا۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر مریم نواز کو جب پارٹی کا چیف آرگنائزر بنایا گیا تو پہلے سے دستیاب قیادت کی طرف سے زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا گیا البتہ اس کہانی میں پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ دونوں طرف یکساں منظور نظر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اس وقت وزیر داخلہ بھی ہیں نواز شریف اور مریم کے بھی بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔
پارٹی کے اندر مریم نواز کی قیادت کے حوالے رہنماؤں کے اصل تحفظات کیا ہیں اس پر پارٹی قیادت کھل کر بات نہیں کر رہی۔
پنجاب میں ن لیگ کی ترجمان عظمٰی بخاری کہتی ہیں کہ پارٹی متحد ہے قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے، مریم صاحبہ کی واپسی پر ان کا لاہور میں شاندار استقبال کیا جائے گا۔ ’لاہور میں اس حوالے سے اجلاس بھی ہوا اور لوگوں کو ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔‘

تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید کچھ رہنما مریم نواز کے اتنے طاقتور ہو جانے کو پسند نہیں کر رہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پارٹی رہنما میاں لطیف کہتے ہیں کہ ’یہ پارٹی میاں نواز شریف کی ہے وہی ہو گا جو وہ چاہیں گے۔ اس لیے کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے فرق نہیں پڑتا۔ جب مریم صاحبہ کو سینیئر نائب صدر بنایا گیا تو پارٹی سے مشاورت کی گئی اس وقت تو کوئی نہیں بولا۔‘
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے باپ کی قید کے دوران ان کا کیس پبلک میں لڑا اور بڑے جلسے کیے اگر پارٹی کو چہرہ چاہیے تو وہ نواز شریف کے بعد مریم ہی ہیں۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں ’یہ درست ہے کہ جتنی تیزی سے پارٹی میں مریم نواز صاحبہ نے جگہ بنائی ہے اس کی ن لیگ کے اندر کوئی مثال نہیں۔ میرا نہیں خیال کہ پارٹی کے اندر کوئی بڑی دراڑ آنے والی ہے۔ جب نواز شریف واپس آئیں گے تو اس پارٹی کے بہت سارے مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے۔‘

شیئر: