’لوگ سرگوشیوں میں گویا ہیں‘ رنگا رنگ کہانیوں، دل موہ لینے والے کرداروں کا ایک کولاژ ہے
راجہ شہزاد علی کے افسانوں اور ایک ناولٹ پر مشتمل مجموعہ ’لوگ سرگوشیوں میں گویا ہیں‘ کے حوالے سے تاثر لکھنا اگرچہ میرے لیے کسی طور آسان نہیں، چونکہ یہ کتاب اتنی متنوع ہے اور پھر راجہ شہزاد علی کا فکری کینوس اتنا وسیع ہے، ان کی کہانیاں اور کردار اتنے رنگ لیے ہوئے ہیں کہ چاہ کر بھی اس کا احاطہ میرے بس میں نہیں۔
کراچی کے جس علاقے میں ہم پلے بڑھے وہاں کی کچی آبادی کے ساٹھ مربع گز (ڈیڑھ مرلے) کے مکانوں پر مشتمل محلے میں جہاں گلیاں بچوں سے اور خوانچہ لگانے والوں بھری سے رہتیں۔ اس کچی آبادی کے کچے گھروں کے بیچ پہلی بلڈنگ کھڑی کی جا چکی تھی، جس کا مالک ایک کامیاب آٹو مکینک تھا اور ان کے پاس کوئی بیس تیس برس پرانے ماڈل کی لیکن چمچماتی ہوئی مرسڈیز کار تھی، کار کے علاوہ اس بلڈنگ کی شہرت ایک متمول فارسی بان خاندان کی بطور کرائے دار رہائش بھی تھی، جن کی لڑکیوں کے عاشق یہاں گرا، وہاں گرا کے سے انداز میں ملحقہ سڑک پر مختلف تھڑوں پر پڑے رہتے اور آہیں بھرتے رہتے تھے۔
اسی سڑک کو نکلتی ایک گلی کے کونے پر چھوٹی سی بیٹھک پر ہمارے محلے کی سینیئر کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر کے بڑے بھائی کی چھوٹی سی بیٹھک تھی، جس کی وجہ شہرت یہاں بلا تفریق رنگ اور زبان (مزید تنوع سے اس وقت ہم واقف نہ تھے) کالونی بھر کے خواجہ سراؤں کا مجمع تھا، جن میں سے ایک گورے چٹے، شوخ رنگوں کے مردانہ لباس پہننے والے کافی تنومند اور نرم گو سے رکن سے ہمارا تعارف ان کے والد کے گوشت کی دکان کے حوالے سے تھا۔ جہاں سے ہم ہفتے میں ایک بار گوشت لینے جاتے، مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں (مجھے تو ایسا ہی لگتا تھا) شناسائی کی لہر آ جاتی اور وہ ہمارے نمبر سے پہلے ہمیں گوشت دے دیتا، آخر اس کے پیر خانے کی گلی کے تھے۔ پھر ایک بار اس کی بیٹھک مالک سے کسی بات پر تکرار ہوئی، وہ گالم گلوچ ہوئی کہ خدا کی پناہ (ہماری وکیبلری میں کافی اضافہ ہوا)، ہمیں اس بات کا دکھ تھا کہ اب وہ ہمیں گوشت خریدتے ہوئے ہمارے نمبر سے پہلے گوشت نہیں دے گا، محلے کے لڑکے بھالے اس باہمی گالم گلوچ سے لطف اندوز ہو رہے تھے، جبکہ ایک بڑے کو ہم نے تمسخر سے کہتے سنا،’یہ۔۔۔ لڑیں گے نہیں، صرف گالی گلوچ ہی کریں گے۔‘
ان ہی گلیوں میں پشتو، اردو، ہندکو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی زبانوں کا رس کانوں میں گھلتا رہتا، جہاں ہم نے کام چلاؤ بول چال اور گالیاں تو سب ہی زبانوں میں سیکھ لی تھیں، پہلا چرسی، پہلا شرابی، پہلا کرش، محبت میں پہلی رقابت، یہاں تک کہ پہلا قتل بھی اسی گلی میں دیکھا، جب کرکٹ گیند لانے کے لیے پڑوس کی چھت پر سوار ناصر کو چچا غوری کے رشتے دار کی خون میں لت پت لاش دکھائی دی اور اس نے چیخ چیخ کر محلہ سر پر اٹھا لیا تھا، بے چارہ بیوی بچوں سے ناراض ہو کر یہاں رہ رہا تھا، بیٹوں نے رات آ کر تکرار بڑھنے پر گلا کاٹ کر مار ڈالا تھا۔
محلہ نہیں، ایک پورا ڈرامہ سیٹ تھا، جہاں طرح طرح کے کردار اپنی پرفارمنس کا جادو جگاتے رہتے، بچپن کی عاشقی بھی عجیب تھی، صحت مند مقابلے کا رجحان ہوتا، گلی میں، سکول میں، مدرسے یا ٹیوشن میں، ایک ہی لڑکی (یا لڑکے کے) کئی عاشق ہوتے جو ایک دوسرے سے کمپیٹ بھی کرتے، توجہ پانے کے لیے کبھی سولو فلائٹ لیتے، کبھی باجماعت محبوب کے کوچے میں منڈلانے پہنچ جاتے. یہاں تک کہ کرائے کے مکان میں رہنے والی دو بہنوں (ایک گوری، ایک گندمی رنگت والی) کی فیملی مکان شفٹ کرنے لگی تو ان کے ڈیڑھ درجن عاشق گھر کا سامان ساتھ لے جانے میں سبقت لیتے دکھائی دیے۔
یہ کراچی ہے، کسی ادعا، احساس برتری سے عاری، بلا کم و کاست زندگی سے بھرپور، نہایت خوبصورت کراچی، میرے اور راجہ شہزاد علی کے درمیان رشتے کا ایک اور معتبر حوالہ، میرا کراچی، ان کا، ہمارا کراچی۔
آپ کہیں گے کہ راجہ شہزاد علی کی کتاب کے بیچ ان سب کا بے محل تذکرہ، چہ معنی دارد۔
دراصل راجہ شہزاد کی کتاب ’لوگ سرگوشیوں میں گویا ہیں‘ بھی ایسی رنگا رنگ کہانیوں، دل موہ لینے والے کرداروں کا ایک کولاژ ہے۔
آفس جانے کے لیے بی آر ٹی پشاور میں سفر کرتے ہوئے میں کتاب لے کر پڑھنے لگتا ہوں، تو جیسے اپنے بچپن، لڑکپن، نوجوانی کے دنوں کی جانب کئی دریچے وا ہو جاتے ہیں۔ وہ کیا کہتے ہیں اسے ’سٹریم آف کانشس نیس‘ میں چلا جاتا ہوں، آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہو جاتے ہیں، پھر ہوش آتا ہے تو ہونقوں کی طرح اردگرد دیکھنے لگتا ہوں۔
یہ کوئی ایسی کتاب نہیں جس کو شروع کرتے ہی آپ ختم کیے بنا نہ رہ پائیں، وہ بنج واچ کے طرز پر بنج ریڈ کا کوئی سین نہیں ہے، کیونکہ ہر کہانی کا تاثر ایسا ہے کہ آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے جس سے نکلے بغیر دوسری کہانی میں نہیں جایا جاتا، میرے ساتھ تو کچھ ایسا ہی ہے. صرف یہ نہیں بلکہ اگر کوئی کہانی دوبارہ پڑھنے لگیں تو اکثر کہانیاں ایسی ہیں کہ آپ یہ جان کر بھی کہ آپ پڑھ چکے ہیں، کردار پہچان کر بھی رک نہیں پاتے پھر سے پڑھنے میں نیا لطف محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے گھر کے صحن میں باورچی خانے کے پاس دیوار پر گیس کا لیمپ لگا ہوا تھا، جو بجلی جانے کے بعد روشن کیا جاتا، اس کا شیشہ بہت سے شیشوں کو ورٹیکل فریم میں جوڑ کر بنایا گیا تھا، جب وہ شیشہ ٹوٹ جاتا تو ہم اسے سنبھال لیتے، اس میں سے تین سیدھے شیشے لے کر تکون کے انداز میں رکھتے اور اس کے گرد اخبار اور کپڑا لپیٹ کر ہوم میڈ کلائیڈو سکوپ بنا لیتے تھے، جس میں رنگ برنگی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈالتے تو شیشوں کے عکس سے اس میں مختلف پیٹرنز کے حامل نہایت خوبصورت رنگ برنگے ڈیزائن بن جاتے تھے. اسے ہلاتے تو ٹکڑوں کی پوزیشن بدلتے ہی نیا ڈیزائن بن جاتا. یہ ہمارے لیے دلچسپ نظارہ ہوتا تھا. لیمپ کے بچے کچھے شیشوں کی ملکیت اور اس میں دوستوں کی دلچسپی کچھ دن تک ہمارے دوستوں میں ہمیں پسندیدہ کردار کا درجہ بھی دلا دیتی تھی۔
راجہ شہزاد علی بھی ٹوٹے لیمپ کے شیشوں کی طرز پر ٹوٹے پھوٹے لیکن خوبصورت، دل موہ لینے والے کرداروں (آپ ان میں سے کسی کے لیے نفرت دل میں نہیں رکھ سکتے، کیونکہ اکثر کیاسز میں یہ ان کرداروں کے مختلف فیزز ہیں، ان کے پرمننٹ کلرز نہیں) کی زندگیوں سے چوڑیوں کے ٹوٹے ٹکڑوں کے مانند چھوٹی موٹی اینکڈاٹس پر مبنی ہیں، جنہیں آپ دوسرے ٹکڑوں سے ملاتے ہیں تو خوبصورت پیٹرنز بن جاتے ہیں۔
ہھر راجہ صاحب گنگا جمنی تہذیب کے دلدادہ اور سناتن دھرمی ہیں اس لیے ہر رنگ کو ایسا اپنایا ہے کہ سب اس میں ہم آہنگ بھی ہے، اس کا اٹوٹ حصہ بھی اور اپنے آپ میں یکتا بھی۔
مذہبی کتابوں میں ایک بزرگ کا قصہ پڑھا تھا، جب وہ قلب ماہیت کے خواستگار ایک مرید کا ہاتھ تھامتے ہیں تو روشنی کے جھماکے سے آنکھیں چندھیا جاتی ہیں، وہ آنکھیں کھول کر اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو ملائک، جنات و شیاطین سب ادھر ادھر فضاؤں میں اڑتے اور تیرتے ہوئے دکھائی دینے لگتے ہیں، جیسے ہی بزرگ ہاتھ چھوڑتے ہیں، سب غائب ہو جاتا ہے۔
اگر آپ بھی ایسے ہی اچھوتے تجربے سے آشنا ہونا چاہتے ہیں، اپنے اردگرد بکھرے ایسے کردار جو آپ کے لیے ان وزیبل یا ان ہرڈ ہیں، تو ہمہ تن گوش ہوجائیے اور ’لوگ سرگوشیوں میں گویا ہیں‘ پڑھنا شروع کر دیں، آپ کے گرد کی خاموشیاں بھی بولنے لگیں گی، سرگوشیاں صاف صاف سنائی دیں گی، دھندلے چہرے واضح دکھنے لگیں گے۔