واقعے کے بعد پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے سکیورٹی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر انسداد دہشت گردی آپریشن پر نئے جذبے کے ساتھ توجہ مرکوز کریں تاکہ پائیدار امن حاصل کیا جاسکے۔
پشاور کا اندوہناک واقعہ پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا بڑا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی اے پی ایس پشاور اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد پر حملے سمیت متعدد خونی واقعات ہو چکے ہیں جس کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بڑے اقدامات کے اعلانات ہوئے مگر ابھی تک دہشت گردی پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا۔
دہشت گردی کے بڑے واقعات
پاکستان میں دہشت گردی کا ایک بڑا واقعہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور میں ہوا جب دہشت گردوں نے فوجی چھاؤنی میں آرمی پبلک سکول پر حملہ کر دیا۔
پاکستانی طالبان نے اس خونی حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں اساتذہ سمیت ایک 147 طلبہ کی جان چلی گئی تھی۔ واقعہ اتنا خوفناک تھا کہ اس نے پوری پاکستانی قوم کی نفسیات کو متاثر کیا۔
آرمی پبلک سکول کے واقعے نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے عزم کو مضبوط کیا اور اس کے بعد اس سے نمٹنے کے لیے ایک ’نیشنل ایکشن پلان‘ تشکیل پایا جس کے بعد قبائلی علاقوں میں بھرپور فوجی آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی میں کافی حد تک کمی ممکن ہوئی۔
اس سے قبل ستمبر 2008 میں اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع فائیو سٹار میریٹ ہوٹل پر ہونے والے خودکش حملے کو بعض افراد نے ملکی تاریخ کا نائن الیون قرار دیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت کے وسط میں ہونے والے اس حملے میں غیر ملکیوں سمیت 50 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک شدگان میں تین امریکیوں اور چیک ری پبلک کے سفیر سمیت کئى غیر ملکی بھی شامل تھے۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے 600 کلوگرام بارود سے بھرے ٹرک کے ذریعے ہوٹل کے مرکزی دروازے پر حملہ کیا تھا۔ حملے کے بعد پاکستان میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ اس ہوٹل کے گرد اب چار میٹر بلند ایک ’بم پروف‘ دیوار تعمیر کر دی گئى ہے۔
کیا اعلانات پر عمل درآمد ہوا؟
تقریباً ہر بڑے واقعے کے بعد پاکستان میں حکام صدمے میں آجاتے ہیں اور فوری اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے، پارلیمنٹ میں قرارداد بھی منظور کی جاتی ہے اور نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی سے نمٹنے کا اعلان بھی ہوتا ہے مگر چند برسوں بعد پھر دہشت گردی کا عفریت قوم پر مسلط ہو جاتا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے سربراہ عبداللہ خان نے بتایا کہ ’یہ درست ہے کہ ہم دہشت گردی کے واقعات کے بعد زیادہ تر فائر فائٹنگ کرتے ہیں مگر ایک طویل حکمت عملی نہیں اپناتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’2014 میں اوسطاً ملک میں دہشت گردی کے ماہانہ 150 حملے ہوتے تھے جس کے بعد آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور ان واقعات میں واضح کمی آگئی حتیٰ کہ 2019 تک ماہانہ اوسط حملے 15 تک محدود ہو گئے۔‘
’تاہم 2019 کے بعد ہر سال دہشت گردی کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور اوسط ماہانہ حملے 30 سے زائد ہو گئے۔‘
ضرب عضب ٹریننگ پوائنٹ ثابت ہوا
تاہم عبداللہ خان سمجھتے ہیں کہ اے پی ایس حملے کے بعد بہت بہتری بھی آئی۔ نیشنل ایکشن پلان تشکیل پایا اور اس پر کافی حد تک عمل بھی ہوا، مثلاً فاٹا میں اصلاحات ہوئیں اور یہ علاقہ خیبر پختونخوا کی عمل داری میں آگیا۔
’اسی طرح فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور دہشت گردوں کو سزائیں بھی ہوئیں، تاہم قانون کے تحت ایک خاص مدت کے بعد فوجی عدالتیں ختم ہو گئیں۔‘
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ ’مدارس کی وزارت داخلہ کے ذریعے رجسٹریشن کو آسان بنایا گیا اور مکینزم بہتر کیا گیا۔ منافرت پر مبنی مذہبی لٹریچر پر پابندی لگائی گئی۔‘
عبداللہ خان کے مطابق ’جون 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد ضرب عضب شروع ہوا جو کہ ٹریننگ پوائنٹ ثابت ہوا اور اب پاکستان میں ایک انچ علاقہ بھی دہشت گردوں کے قبضے میں نہیں رہا۔‘
’اس سے قبل باجوڑ، اورکزئی ایجنسی، شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں کئی علاقے ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) یا دوسرے گروپوں کے قبضے میں تھے۔‘
ان کے مطابق ’پہلے سمجھا جاتا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے قائم گروپوں پر کام نہیں ہوتا مگر پچھلے پانچ برسوں کے دوران ان کے خلاف بھی کاروائیاں ہوئیں۔ گذشتہ برسوں کے دوران ریاست نے کافی کچھ سیکھا ہے مگر مزید سیکھنے کی گنجائش موجود ہے۔‘
دہشت گردی کے خلاف عزم کی کمی بڑا مسئلہ ہے؟
سکیورٹی امور پر رپورٹنگ کرنے والے صحافی اعزاز سید سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عزم کی کمی دہشت گردی کے خلاف اقدامات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق ’ہم پالیسیاں بنا بھی لیتے ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔‘
’مثال کے طور پر نیشنل ایکشن پلان پر کچھ حد تک عمل ہوا اور پھر عمل رک گیا جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کا عدم تسلسل بھی ہے۔‘
ان کے مطابق ’2013 سے 2018 تک پہلے مسلم لیگ ن نے انتہا پسندوں سے مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا اور مذاکرات نہ کرنے کا عزم ہوا مگر جب مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو پی ٹی آئی نے پھر مذاکرات کی پالیسی اپنا لی۔‘
اعزاز سید کے مطابق ’یہاں ہر سیاسی جماعت نیا تجربہ کرتی ہے جس کی وجہ سے پالسیوں کا تسلسل نہیں رہتا۔‘