Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کی نگراں حکومت، منتخب حکومت سے زیادہ متحرک کیوں ہے؟

پنجاب کے نگراں وزیراعلٰی محسن نقوی مختلف ہسپتالوں اور جگہوں کے دورے کر رہے ہیں (فائل فوٹو: گورنر ہاؤس)
پاکستان کے دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اس وقت نگراں حکومتیں قائم ہیں۔ یہ حکومتیں ان صوبوں میں نئے انتخابات تک قائم رہیں گی۔
پنجاب کی نگراں حکومت البتہ بہت زیادہ خبروں میں ہے۔ نگراں وزیراعلٰی محسن نقوی ہسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں، انہوں نے مینٹل ہسپتال کا بھی دورہ کیا ہے۔
بدھ کے روز نگراں حکومت نے صوبے کے 15 بڑے ہسپتالوں کو پیپرلیس کرنے اور مریضوں کے لیے پیشنٹ مینجمنٹ سسٹم کے نفاذ کی بھی منظوری دی ہے۔
صرف یہی نہیں نگراں وزیراعلٰی نے بدھ کے روز ملک کے جگر اور گردے کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) کا دورہ کیا۔
اس موقعے پر انہوں نے بیان دیا کہ ’مفت اور معیاری علاج نادار مریضوں کا حق ہے، پی کے ایل آئی کو بنیادی مقاصد کے مطابق بحال کیا جائے گا۔‘ انہوں نے پی کے ایل آئی کے امور پر بریفنگ لی اور اجلاس کی صدارت بھی کی۔
خیال رہے کہ پی کے ایل آئی پنجاب کے سابق وزیراعلٰی اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کا منصوبہ تھا۔ 2018 کے انتخابات سے قبل نگراں حکومت کے دور میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس منصوبے کی شفافیت پر سوالات اٹھائے تھے جس کے نتیجے میں اس کے بانی ڈاکٹر سمیت متعدد عملے نے استعفے دے دیے تھے۔
اس کے علاوہ وزیراعلٰی آفس دن میں کئی مرتبہ ایسی خبریں جاری کرتا ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ نگراں وزیراعلٰی نے فلاں فلاں معاملات کا نوٹس لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نگراں حکومت کے ذمے صوبے کے معاملات کس حد تک ہوتے ہیں؟
سابق نگراں وزیراعلٰی پنجاب ڈاکٹر حسن عسکری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نگراں حکومتوں کے پاس بہت کم اختیارات ہوتے ہیں اور آئین میں ان کی حدود متعین ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق ’صورت حال کو دیکھیں تو یہ نگراں وزیراعلٰی کی میڈیا پر رہنے کی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے‘ (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

نگراں حکومت تقرر اور تبادلے تک اپنی مرضی سے نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن کی اجازت کی ضروت ہوتی ہے۔ کوئی ایسا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا جو کہ نگراں حکومت کی مدت سے بڑا ہو۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’نگراں حکومت کس حد تک اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے اس کا پتا انتخابات کے قریب چلتا ہے جب تمام سیاسی پارٹیاں میدان میں ہوتی ہیں۔ اس وقت نگران حکومت اگر جانب دار وہ تو اسکی جانب داری عیاں ہو جاتی ہے۔‘
اس وقت لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ نگراں حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت سے جواب طلب کیا ہے، اس کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے ہو گی۔
پاکستان میں جمہوری عمل پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ’پنجاب کی نگراں حکومت کا جانچنے کا طریقہ صرف کسی حقیقی منصوبے کی شروعات سے ہو سکتا ہے۔‘

سابق نگراں وزیراعلٰی ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’نگراں حکومتوں کے پاس بہت کم اختیارات ہوتے ہیں‘ (فائل فوٹو: پنجاب حکومت) 

انہوں نے کہا کہ ’ابھی تک کی صورت حال کو دیکھیں تو یہ صرف میڈیا پر رہنے کی حکمت عملی معلوم ہوتی ہے۔‘
’پہلے سے جاری منصوبوں پر بریفنگ لینا اور جلد مکمل کرنے کی ہدایت کرنا اور یہ تاثر دینا کہ یہ آپ کی وجہ سے یہ ہو رہا ہے یہ اس بات سے مختلف ہے کہ واقعی میں نگراں حکومت ایک منتخب حکومت جیسے کام کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میڈیا پر آپ اپنے آپ کو کیسے پیش کرتے ہیں اس پر قانون میں کوئی قدغن نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر حسن عسکری اپنے نگراں دور حکومت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میری ساری توجہ اس بات پر تھی کہ میرے ذمے کام کیا لگا ہے اور یہ کہ میں نے کسی بھی وجہ سے متنازع نہیں ہونا۔ اس لیے میں نے اپنی نمائش کا نہیں سوچا۔ مجھے پتا تھا میرے اختیارات ہیں ہی کتنے۔‘

شیئر: