کراچی فِش ہاربر میں آتشزدگی، ’زندگی بھر کی جمع پونجی راکھ کا ڈھیر بن گئی‘
کراچی فِش ہاربر میں آتشزدگی، ’زندگی بھر کی جمع پونجی راکھ کا ڈھیر بن گئی‘
جمعرات 9 فروری 2023 14:42
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کراچی فش ہاربر میں سات اور آٹھ فروری کی درمیانی شپ آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا (فوٹو: سکرین گریب)
دو دن قبل پاکستان کے ساحلی شہر کراچی فش ہاربر میں جل کر خاکستر ہو جانے والی لانچ کے مالک سلیم سومرو کا کہنا ہے کہ ’چند گھنٹوں کی آگ سے زندگی بھر کی جمع پونجی راکھ کا ڈھیر بن گئی ہے۔‘
’دوستوں اور عزیزوں سے قرض لیا، گاڑی فروخت کی، اپنی زندگی بھر کی کمائی سمیت اہل خانہ کے زیور فروخت کرکے ایک لانچ بنائی تھی کہ روزگار کا ذریعہ بنے گا تو حالات بہتر ہوں گے۔‘
’قرض داروں کا قرض اتاروں گا اور وقت کے ساتھ ساتھ ایک بہتر زندگی گزار سکوں گا۔‘
سلیم سومرو کے بقول لانچ مکمل تیار ہو گئی تھی اور 20 دن بعد سمندر میں اتارنا تھی کہ اچانک منگل کے روز ورکشاپ میں آگ لگی اور لانچ راکھ کا ڈھیر بن گئی۔
’چند لمحوں میں سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں، اب قرض خواہ سر پر کھڑے ہیں اور ہاتھ بالکل خالی ہیں۔‘
یاد رہے کہ کراچی فش ہاربر میں سات اور آٹھ فروری کی درمیانی شپ آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
کراچی فش ہاربر اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق کراچی فش ہاربر کالا پانی کے قریب برتھ نمبر سات اور آٹھ کے قریب آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا۔ آگ کے نتیجے میں ایک لانچ مکمل طور پر جل گئی ہے جبکہ دیگر تین لانچوں کو نقصان پہنچا ہے۔ بیان کے مطابق ’آگ لگنے کی وجہ تاحال پتا نہیں چل سکی تاہم واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور جلنے والی کشتیوں کے نقصان کا تخمینہ بھی لگایا جارہا ہے۔‘
پاکستان کا سب سے بڑا فش ہاربر
پاکستان کے سب بڑے شہر کراچی کا فش ہاربر ملک میں سمندری حیات کی ایک بڑی مارکیٹ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن یہ مرکزی فش ہاربر آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم نظر آتا ہے۔
لگ بھگ 84 ایکڑ کے رقبے پر موجود اس فش ہاربر میں ہزاروں افراد روزانہ کی بنیاد پر روزگار کے حصول سمیت مختلف معاملات کے لیے آتے جاتے ہیں۔
ملک کے لیے زرِمبادلہ کی صورت میں لاکھوں ڈالر کا سرمایہ کمانے والے اس ہاربر میں آگ بجھانے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے۔
کراچی فش ہاربر میں صفائی ستھرائی کی ابتر صورتحال اور ہاربر کو عالمی معیار کے مطابق اَپ گریڈ نہ کرنے کی وجہ سے کئی برسوں سے یورپی یونین نے پاکستان سے سی فوڈ کی خریداری پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
کراچی فش ہاربر میں 25 سے زائد فیکٹریاں موجود ہیں۔ چھوٹی بڑی لانچیں بنانے والی کئی ورکشاپ یہاں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سی فوڈ کی خریدو فرخت کی مارکیٹ بھی اس فش ہاربر میں ہی ہے۔
سینئر صحافی وکیل الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کراچی کے فش ہاربر میں تین حکومتی ادارے کام کرتے ہیں۔ جن میں میرین فشریز وفاقی حکومت کا ادارہ ہے۔ کراچی فش ہاربر اتھارٹی صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اور فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی نیم سرکاری ادارہ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’بنیادی طور پر کراچی فش ہاربر اتھارٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ فشریز کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنائے اور یہاں کام کرنے والوں کو سہولیات فراہم کرے کیونکہ فش ہاربر سے کرائے سمیت دیگر سہولیات کی مد رقم وصول کرتی ہے۔‘
کیا پہلے کبھی فش ہاربر میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا؟
وکیل الرحمان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی ہاربر میں آتشزدگی کے واقعات پیش آ چکے ہیں جن کی وجہ سے ماہی گیروں اور لانچ مالکان کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
’ایک بڑا واقعہ دسمبر سال 2019 میں بھی پیش آیا تھا جب فش ہاربر روڈ برتھ نمبر پانچ پر آگ لگی تھی اور اس واقعے کے نتیجے میں آٹھ زیرِمرمت لانچیں جل کر خاکستر ہو گئی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کئی بار فش ہاربر میں آتشزدگی کے واقعات ہونے کے باوجود اب تک ہاربر میں فائر سٹیشن نہیں بنایا گیا ہے۔ آج بھی ڈاکیاڈ اور کے پی ٹی سمیت دیگر فائر سٹیشن پر ہی انحصار کیا جارہا ہے۔‘
’ہاربر میں فوری آگ بجھانے کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے منگل کی رات آتشزدگی کے واقعہ پیش آیا اور نئی تیار ہونے والی لانچ سمیت چار لانچیں جل گئیں۔‘
لانچ کے مالک سلیم سومرو کا کہنا ہے کہ ’ایک لانچ کی تیاری پر تقریباً اڑھائی کروڑ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ یہ ایک بڑی رقم ہے اور نقصان کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت اور ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی انجمن سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔‘
’ہم 20 سال کی محنت کے بعد اپنی لانچ بنا رہے تھے، مدد نہ کی گئی تو بہت مشکل ہوجائے گی۔‘